بالکل ان دنوں جیسا ہی موسم تھا میں انٹرمیڈیٹ کا طالب علم تھا، سرگودھا گورنمنٹ کالج کے ہاسٹل میں مقیم تھا، بھٹو دور کا عروج تھا کہ عام انتخابات کا اعلان ہو گیا۔
سرگودھا گول باغ میں قومی اتحاد کا جلسہ ہوا تو طالب علم بھی اس میں کشاں کشاں گئے۔ بھٹو کا انتخابی جلسہ سرگودھا سٹیڈیم میں ہوا اپنے اندر کےسیاسی کیڑے کی وجہ سے میں بھی دیکھنے گیا۔ سٹیج پر صرف ایک کرسی تھی جس پر بھٹو صاحب بیٹھے تھے، گورنر، وزیراعلیٰ اور آفسر ہاتھ باندھے کھڑے تھے بھٹو نے چن چن کر اپنے مخالفوں کو نشانہ بنایا کہا یہ مفتی ی، یہ نورانی ی، یہ مزاری ی، سب میں چھوٹی ی لگتا ہے یہ سب حلوہ خور اور نااہل ہیں۔
دونوں فریق اپنے جوبن پر تھے طبیعت کے اندر چھپے باغی کی وجہ سے میرا وزن قومی اتحاد کے پلڑے میں تھا حالانکہ چچا ارشد کے سوا میراسارا خاندان پیپلزپارٹی کا حامی تھا۔
انتخابی بخار بڑھا تو میں بھی ہر انتخابی جلوس میں موجود ہوتا، کبھی بسوں کی چھتوں پر سوار ہوتا تو کبھی میلوں پیدل چلتا۔ اس دوران ہمارے ہی ہاسٹل کا ایک نوجوان بس سے گر کر جاں بحق ہوا۔ میرے گھر والوں کو خبر ہو گئی کہ میں کچھ زیادہ ہی متحرک ہوں۔ میرے دونوں چچا آئے اور مجھے ہاسٹل سے لے کر گھر چھوڑ آئے۔ چنانچہ قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک میں نے گھر میں نظر بندی گزارتے ہوئے دیکھی۔
ہر روز کھوکھوں اور نائی کی دوکان پر جا کر اخبار پڑھتا۔ ’مساوات‘ سے لے کر ’مشرق‘ اور ’جنگ‘ تک سبھی مجھے ازبر ہوتے گھر پر انگریزی اخبار ’پاکستان ٹائمز‘ آتا تھا جس میں کوئی مزیدار اور مصالحے دار سیاسی خبر نہیں ہوتی تھی، وہ اخبار صرف انگریزی بہتر کرنے کے لیے پڑھا جاتا۔
قومی اتحاد کی تحریک چلی، جلسے جلوس اور گھیراؤ جلاؤ ہوتا رہا۔ اور پھر آگیا پانچ جولائی۔

تھا تو یہ کھلم کھلا فاؤل پلے مگر اس کا خفیہ نام آپریشن فیئر پلے تھا۔ راتوں رات بھٹو اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو رخصت کر کے اس کے اہم رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا۔ قومی اتحاد کی قیادت بشمول مولانا مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ خان، اصغر خان اور نورانی میاں بھی نظر بند کر دیے گئے۔
شروع کے چند دن تو لگا کہ مارشل لا کے بعد 90 دن بعد الیکشن ہو جائیں گے اور جمہوریت پھر سے چل پڑے گی مگر اس سیاہ دن مکمل جمہوری اقتدار کا جو سورج غروب ہوا وہ 42 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک گہنایا ہوا ہے۔
جمہوری چکا چوند کے بعد آمریت کی لمبی رات اور پھر آدھا تیتر آدھا بٹیر نظام نے ماضی کے رومانس میں اضافہ کر دیا۔ میری سیاسی قلب ماہیت اور کایا کلپ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کی کارروائی پڑھتے پڑھتے ہوگئی۔
مزید پڑھیں
مجھے یوں لگا کہ سارا نظام سازش کے تحت بھٹو کو انصاف نہیں دے رہا اور اس کا عدالتی قتل کیا جا رہا ہے اسی عدالتی کارروائی کے دوران اپنے دوراقتدار کا جابر بھٹو مظلوم بھٹو میں تبدیل ہو چکا تھا۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا 90 روز سالوں اور پھر پوری دہائی تک پھیل گئے ضیا آمریت سے طالب علموں، عورتوں، وکیلوں اور سیاستدانوں کے اختلاف بڑھتے گئے۔ ہمارا یونیورسٹی کا زمانہ گھٹن اور دباؤ میں گزر گیا ’یہ نہیں کرنا اس کی اجازت نہیں ہے۔‘
ضیا آمریت کا آسیب معاشرے پر اس قدر غالب آگیا کہ اقدار ہی بدل گئیں۔ مصنوعیت، منافقت اور جارحیت عام ہو گئی۔ توازن، اعتدال اور برداشت کی خوبیاں غائب ہو گئیں۔ اب ضیا دور کو گئے کئی دہائیاں گزر گئیں مگر اس کا آسیب آکاس بیل کی طرح معاشرے کو ایسا چمٹا ہے کہ اسے ریزہ ریزہ کرنے کے درپے ہے۔ فرقہ بندی، ذاتیں، خانہ جنگی ، کلاشنکوف اور ہیروئین کلچر وہ تحفے ہیں جو پانچ جولائی کا آپریشن فیئر پلے پاکستان کو سونپ دیا گیا۔
لاکھ کوششوں کے باوجود ہم پانچ جولائی 1977سے پہلے والا پر سکون معاشرہ واپس لانے میں ناکام ہیں۔

دوسری طرف جنرل ضیا الحق نے افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف امریکہ کی مدد سے عملی مزاحمت اور خفیہ امداد کا سلسلہ شروع کر دیا۔ پڑوس میں تیسری عالمی جنگ کے شعلے بلند ہوتے رہے پاکستان میں بھی اس آگ سے بہت کچھ بدل گیا۔ تخریب کاری، بم دھماکے، افغان مہاجرین اور ہیروئین اور کلاشنکوف جیسی وبائیں اسی جنگ کا نتیجہ تھیں۔
عالمی سامریت کا ساتھ دیتے دیتے جنرل ضیا الحق نے اپنے توسیعی عزائم کے خواب دیکھنے شروع کر دیے۔ افغانستان تو آخر تک ان کا میدان عمل رہا۔ ساتھ ہی ساتھ روس اور چین کے مسلم شدت پسندوں کو بھی پاکستان لا بٹھایا۔ انڈیا کے سکھوں میں آزادی کی تحریک کے حوالے سے بھی امداد شروع کی۔
اپنی ذات سے بڑے اور اپنی ریاست سے کہیں عظیم تر منصوبے با لآخر ناکام ہو گئے اور ان کا خواب میں بنایا ہوا تاج محل ان کی زندگی کے ساتھ ہی گر پڑا۔ ان کی توسیع پسندانہ اور شدت پسندانہ پالیسیاں آج بھی پاکستان کے گلے پڑی ہوئی ہیں۔ اسامہ بن لادن پر حملہ اور پھر دنیا بھر میں دہشت گردی کے نشانات کا ہمارے ملک تک پہنچنا دراصل جنرل ضیا الحق کی بوئی ہوئی وہ فصل ہے جسے ہم آج تک کاٹ رہے ہیں۔
