سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے متنازع شخص سے ملاقات کرکے اپنے اوپر بڑا داغ لگا لیا ہے اور وفاقی حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی خدمات پنجاب عدلیہ کو واپس کرے جہاں پر ان کے خلاف انضباطی کاروائی کی جائے۔
اردو نیوز کو ایک خصوصی انٹرویو میں آٹھ سال تک پاکستان کے چیف جسٹس رہنے والے افتخار چوہدری نے کہا ہے کہ جج ارشد ملک کو ایک مجرمانہ ماضی رکھنے والے شخص سے نہیں ملنا چاہیے تھا اور رشوت کی پیش کش کرنے والے شخص کو نا صرف ہتھکڑی لگانی چاہیے تھی بلکہ مانیٹرنگ جج کو بھی اطلاع دینی چاہیے تھی۔
’انہوں (جج صاحب) نے کہا ہے کہ میرے پاس وہ (ناصر بٹ) آتا تھا۔ میں اس سے باتیں بھی کرتا تھا تو ایسی صورت میں فیڈرل گورنمنٹ کو چاہیے کہ ان کو سرنڈر کر دیں اور یہ واپس جائیں اپنے صوبے میں۔ وہاں ان کے صوبے میں جو ان کی عدلیہ ہے جو ان کے چیف جسٹس ہیں وہ ان کے خلاف انضباطی کارروائی کریں اور جو بھی اس کارروائی کا نتیجہ نکلتا ہے اس کا ان کو سامنا کرنا چاہیے۔‘
سابق چیف جسٹس نے اس بارے میں مزید کہا کہ’یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے جو انہوں نے کی ہے یہ نہیں ہوگا کہ پتا نہیں کیس کا کیا فیصلہ ہوتا ہے اپیل کیا کرتی ہے لیکن آپ نے اپنے اوپر ایک بہت بڑا داغ لگا لیا ہے محترم۔‘
یاد رہے کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی خدمات وفاقی حکومت نے پنجاب عدلیہ سے مستعار لے کر انہیں احتساب عدالت کا جج مقرر رکھا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے کو مسلم لیگ ن کی سینیئر قیادت کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران پارٹی کی نائب صدر مریم نواز نے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس کیس میں سزا سنانے والے نیب عدالت کے جج اور نواز شریف کے قریبی ساتھی ناصر بٹ کی خفیہ کیمرے سے بنی ایک مبینہ ویڈیو دکھاتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ’سزا دینے والا جج خود بول اٹھا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی اور فیصلہ کیا نہیں صرف سنایا گیا ہے۔‘
جسٹس (ریٹائرڈ) افتخار چوہدری کے مطابق اگر وفاقی حکومت احتساب جج کی خدمات واپس نہیں بجھواتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ یہ آدمی اسی طرح لوگوں کو سزا دیتا رہے۔
’اگر آپ نے شفاف کارروائی کروانی ہے تو اس کو واپس بھیج دیں۔‘
یاد رہے کہ جج ارشد ملک نے پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کی جانب سے دکھائی گئی ویڈیوز کو جعلی قرار دیا تھا تاہم ارشد ملک سے ملاقاتوں کی تصدیق کی تھی اور الزام عائد کیا تھا کہ نوازشریف اور خاندان کے مقدمات کے دوران انہیں متعدد بار رشوت کی پیش کش کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں
-
’نواز شریف کے خلاف فیصلہ دباؤ میں کرایا گیا‘Node ID: 424916
-
’ایک جج نہیں بلکہ پوری عدلیہ کی ساکھ پر انگلیاں اٹھائی گئیں‘Node ID: 424921