سوڈان: تشدد اور’جنسی زیادتیوں‘ کے باوجود خواتین جدوجہد کے لیے پرعزم
سوڈان: تشدد اور’جنسی زیادتیوں‘ کے باوجود خواتین جدوجہد کے لیے پرعزم
جمعہ 12 جولائی 2019 3:00
صدر عمر البشیر کی 30 سالہ حکومت کے خلاف مظاہروں میں خواتین پیش پیش رہیں۔ تصاویر روئٹرز
خدیجہ صالح چھ سال بیرون ملک مقیم رہنے کے بعد اس سال مارچ میں حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شرکت کے لیے سوڈان واپس لوٹیں۔ یہ مظاہرے تیس سال سے برسر اقتدار عمرا البشیر کی حکومت کے خاتمے اور ملک میں جمہوری تبدیلی کے لیے ہو رہے تھے۔
خدیجہ تین جون کو برسرا اقتدار ملٹری کونسل کی جانب سے عنان حکومت سویلین کے سپرد نہ کرنے کے خلاف وزارت دفاع کے باہر ہونے والے دھرنے میں شریک تھی جب سیکیورٹی اہلکاروں نے دھرنے پر دھاوا بول دیا۔
صالح کا کہنا ہے کہ دھرنے پر سیکیورٹی فورسس کے دھاوے کے دوران ان کو ڈنڈوں سے مارا گیا۔ ابھی تک ان کے زخموں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔
41 سالہ صالح کا کہنا تھا کہ وہ ایک محفوظ جگہ سے سوڈان اس لیے واپس آئی کیونکہ وہ اس ملک کے لیے بہتر مستقبل کا خواہاں ہیں۔ اس سے پہلے صدر عمرا البشیر کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بھی خواتین ایک قوت متحرکہ رہی ہیں۔
تاہم عمرالبشیر کے اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی مظاہرے نہیں رکے کیونکہ مظاہرین کا ملٹری کونسل سے مطالبہ تھا کہ وہ اقتدار جلد سویلین کو منتقل کر دیں۔
53 سالہ سول سوسا ئٹی کے کارکن ناہید گبرالا کا کہنا ہے کہ تین جون کے پرتشدد واقعے کے دوران ان کو مارا گیا اور کو جنسی زیادتی کی دھمکی دی گئی۔
ان کا ماننا ہے، ’سوڈان بہتر ہو سکتا ہے۔ میری بیٹی کا یہ حق ہے کہ وہ ایک اچھے ملک میں رہے۔۔۔ہم اصل تبدیلی، ایک جمہوری سوڈان کے قیام اور اپنے حقوق کے لیے لڑیں گے۔‘
اکتالیس سالہ عمیل تاجلدین کا کہنا ہے کہ جب وہ مظاہروں میں حصہ لینے جاتی تھیں تو ان کے شوہر بچوں کا خیال رکھتا تھا۔ تاجلدین کے چار بچے ہیں۔ عمیل تاجلدین بچوں کو دھرنے کے دوران گانے سکھاتی تھی۔ جون 3 کو حملے کو دوران ان کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد ان کے ہاتھ پٹیوں سے بندھے ہیں۔
جنسی ذیادتی کے واقعات
امریکی ادارے فزیشنز فور ہیومن رائٹس کے مطابق سوڈان میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ عورتوں کے کپڑے پھاڑے گئے اور انہیں جنسی ذیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ تاہم ایسے واقعات کی تعداد کا پتہ لگانا مشکل ہے۔
سوڈان میں خواتین کارکنان نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا کہ فوج کے اہلکاروں نے عورتوں کی بے حرمتی کی اور ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
ایک خاتون کارکن ہادیہ حساب للہ کا کہنا ہے، ’وہ جانتے ہیں کہ اگر خواتین کی بے حرمتی ہوگی تو اس کا اثر پوری قوم پر ہوگا۔ کوئی بھی سوڈانی خاتون سرکاری طور پر یہ بیان نہیں دے گی کہ ان کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘
روئٹرز کے مطابق ملٹری کونسل کے ترجمان سے اس معاملے پر رابطہ نہیں ہو سکا۔ تاہم اس سے قبل کونسل نے جنسی ذیادتی کے واقعات کی تردید کی تھی۔
دوسری جانب سوڈان میں انسانی حقوق کے کمیشن کا کہنا تھا کہ دھرنے کے دوران ہونے والی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔