Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ٹیکس ریکارڈ برطانیہ جیسا مگر مراعات یوگینڈا جیسی‘

ہڑتال کے باعث ملک بھر میں سڑکوں پر ٹریفک معمول سے کم رہی۔ تصویر: اے ایف پی
وفاقی بجٹ میں سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے کے خلاف انجمن تاجران پاکستان کی اپیل پر ملک بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جا رہی ہے۔
ہفتے کو جاری اس ہڑتال کی وجہ سے کراچی، پشاور، کوئٹہ، اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت کئی شہروں میں بیشتر چھوٹی اور بڑی مارکیٹیں اور تجارتی مراکز بند ہیں جبکہ کراچی اور لاہور سمیت بعض شہروں کی کچھ تاجر تنظیموں نے ہڑتال سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔
ہڑتال کے باعث ملک بھر میں سڑکوں پر ٹریفک معمول سے کم رہی۔
صوبہ سندھ میں کراچی، حیدر آباد، سکھر اور میرپور خاص سمیت بیشتر شہروں میں تاجروں نے کاروبار بند رکھا ہوا ہے۔
کراچی میں انجمن تاجران، تاجر ایکشن کمیٹی اور صدر طارق روڈ الائنس کی کال پر آج مارکیٹیں بند ہیں، شہر کی دیگر چھوٹی بڑی دکانیں بھی بند ہیں۔
کراچی تاجر ایکشن کمیٹی کے رکن اور الیکٹرانک ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر رضوان عرفان کے مطابق حکومت سے جاری مذاکرات ناکام ہوئے اور بعد ازاں وزیراعظم عمران خان سے ہونے والی ملاقات بھی بے نتیجہ رہی۔
اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ تاجروں کا سب سے بڑا مطالبہ لین دین کے معاملات میں شناختی کارڈ کی شرط کو ختم کرنے کا ہے، تاہم اس حوالے سے حکومت کوئی لچک نہیں دکھا رہی۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے ٹیکس اور لین دین کے حوالے سے جو نئی پالیسیاں مرتب کہ گئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ 50 ہزار سے زیادہ کے لین دین کی صورت میں سیلز انوائس پہ خریدنے والے کا شناختی کارڈ نمبر بھی لکھا جائے تاہم تاجر اس شرط کے خلاف ہیں۔ 
ان کا کہنا ہے کہ اس سے ان کے کاروبار کو دھچکا لگ رہا ہے۔ تاجروں کے مطابق نئی پالیسوں سے واقفیت اور ان کو سمجھنے کے لیے وقت درکار ہوگا، ابھی تو نہ گاہک اس حوالے سے آگاہ ہے اور نہ ہی دکانداروں اور تاجروں کے پاس لکھت پڑھت کے لیے اضافی لوگ بھی فوری طور پر میسر نہیں ہیں۔

خیال رہے کہ بدھ کو سندھ کے گورنر ہاؤس میں وزیراعظم سے ہونے والی ملاقات میں بھی تاجروں نے یہی مطالبہ کیا تھا لیکن وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم کے ارکان نے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا تھا۔
ملاقات میں تاجروں کے مختلف وفود نے ٹیکس نظام میں اصلاحات، مہنگائی پر قابو پانے، سمگلنگ کی روک تھام، کاروبار میں آسانی، سرمایہ کاری کے فروغ، روزگار کے مواقع بڑھانے اور محصولات میں اضافے کے حوالے سے تجاویز بھی پیش کیں۔ تاہم مطالبات پورے نہ ہونے کی وجہ سے تاجر رہنماؤں نے مذاکرات کو ناکام قرار دیا۔
معاشی ماہرین کے مطابق کراچی کے کاروباری مراکز میں ہڑتال کا ملک بھر پہ منفی اثر پڑتا ہے اور تمام شہریوں کو اشیاء کی ترسیل میں تعطل آتا ہے۔ علاوہ ازیں اس ہڑتال سے سب سے زیادہ متاثر دیہاڑی دار مزدور ہوتے ہیں جن کے لیے دیہاڑی کیے بغیر دو وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
تاجروں کی ہڑتال ایک طرف مگر کراچی میں قائم شاپنگ مالز اور ڈیپارٹمنٹل سٹورز معمول کے مطابق کھلے ہوئے ہیں۔ 
ادھر اسلام آباد میں کراچی کمپنی، آپپارہ مارکیٹ، جی 10، جی 11 ،ایف 10 مرکز ، میلوڈی ،جناح سپر مارکیٹ اور ستارہ مارکیٹ میں مکمل طور پر شٹر ڈاؤن ہے۔ راولپنڈی کے معروف تجارتی مراکز مری روڈ اور راجا بازار میں بھی بند ہیں۔

ہڑتال کی اپیل پر بعض شہروں میں کاروبار جزوی طور پر بند ہے، تصویر: روئٹرز

پنجاب میں ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، خانیوال، بھکر، لودھراں، رحیم یار خان، پاک پتن، بہاول نگر، جہلم اور وہاڑی میں کاروباری مراکز بند ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا  میں پشاور، صوابی، ڈیرہ اسماعیل خان، ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہری پور، چارسدہ اور کرک سمیت بیشتر شہروں میں تجارتی اور کاروباری مراکز بند ہیں۔
صوبہ بلوچستان میں بھی تاجروں نے حکومت کی جانب سے نئے مالی سال کے بجٹ میں تاجروں پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ کوئٹہ،چمن، چاغی، دکی، لورالائی،پشین سمیت صوبے کے 20 سے زائد شہروں میں مرکزی انجمن تاجران بلوچستان کی اپیل پر شٹر ڈاﺅن ہڑتال ہے۔ بیشتر کاروباری و تجارتی مراکز بند ہیں جبکہ ٹریفک بھی معمول سے کم ہے۔
کوئٹہ میں میزان چوک، قندھاری بازار، لیاقت بازار، پرنس روڈ ، جناح روڈ، سورج گنج بازار، مشن روڈ، ڈبل روڈ، سرکی روڈ اور دیگر وسطی علاقوں میں بینک، دکانیں اورمارکیٹیں بند ہیں۔
آل پاکستان ٹریڈ یونین کے صدر اجمل بلوچ نے اردو نیوز کے نامہ نگار زبیر خان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر تمام تاجروں سے سال میں تین بار اور ماہانہ کی بنیادوں پر ریٹرن فائل کرنے کا قانون لاگو کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ 50 ہزار سے زائد کی خریداری کرنے والوں کے شناختی کارڈ کی کاپی رکھنے کا بھی مطالبہ کر رہی ہے۔ 


 تاجر برادری فکسڈ ٹیکس دینے کے لیے تیار ہے۔ فوٹو اے ایف پی

اجمل بلوچ کے بقول حکومت برطانیہ کی طرز پر ٹیکس ریکارڈ مانگ رہی ہے لیکن مراعات یوگینڈا کی طرز پر دے رہی ہے۔ 
انہوں نے مزید کہا کہ چھوٹا دوکاندار اتنے دستاویزی ریکارڈ نہیں رکھ سکتا کیونکہ اس ملک میں شرح تعلیم بہت کم ہے۔ ’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ہمارے ساتھ مذاکرات کرے، ہم پر فکسڈ ٹیکس عائد کیا جائے۔ تاجر برادری فکسڈ ٹیکس دینے کے لیے تیار ہے۔ 
اجمل بلوچ نے مزید بتایا کہ 41 لاکھ سے زائد کمرشل کاروربار رجسٹرڈ ہیں ان پر فکسڈ ٹیکس لاگو کیا جائے۔ ’ہمارا عمران خان سے مطالبہ ہے کہ ہماری بات سنی جائے ہم اس ملک کے شہری ہیں اور اس ملک میں ٹیکس دینے کے لیے تیار ہیں۔

شیئر: