پاکستان کے سابق نائب وزیراعظم اور حکومت کے اہم اتحادی چوہدری پرویز الہٰی نے کہا ہے کہ حکومت کی میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹربیونلز بنانے کی پالیسی غلط ہے اور یہ اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔
’اردو نیوز‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ حکومت کو جھوٹی خبریں اور شہرت کو نقصان پہنچانے والے پراپیگنڈے کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہیں لیکن وہ سچ کونہیں روک سکتی۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ عمران خان کے میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے خیالات کی حمایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ’اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، آپ نے اس خبرکو روکنا ہے، جو غلط خبر ہے، آپ نے اس خبرکو روکنا ہے جو آپ کو بدنام کر رہی ہے، آپ نے اس خبر کو روکنا ہے کہ جو سچ نہں ہے۔ باقی تو آپ نہیں روک سکتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کی بجائے حکومت کو ڈی فیمیشن قوانین کو مضبوط بنا کر ان پرسختی سے عملدرآمد کروانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’ٹربیونل بنانے کا کوئی فائدہ نہیں، یہ حکومت غلط طرف جا رہی ہے۔ ان کو برطانیہ والا ڈی فیمیشن قانون لا کراس پرعملدرآمد کروانے کی ضرورت ہے۔ (اس قانون کے بعد) اگر میڈیا غلط چھاپے گا جو کہ نہیں چھاپ سکتا، یا کم از کم پہلے دیکھے گا میڈیا ہاؤس، نہیں تو پھر اس کو اتنے پیسے دینے پڑیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ان کے خاندان نے اس قانون کے ذریعے ذاتی طور پر برطانیہ میں دو مرتبہ انصاف حاصل کیا ہے اورچوہدری شجاعت حسین نے اپنی وزارت عظمٰی کے دور میں یہ قانون جنرل پرویز مشرف کی مرضی سے متعارف بھی کروایا تھا، لیکن میڈیا نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے گٹھ جوڑ سے اس کو’ٹھپ کروا دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب یہ (چوہدری شجاعت حسین) وزیراعظم بنے تو وہی قانون لا کے مشرف صاحب کو دکھایا۔ انہوں نے کہا یہ بڑا اچھا ہے، انہوں نے یہ پاس کروا دیا اسمبلی سے۔ اسکے بعد انہوں نے برطانیہ کے ہائی کورٹ کی طرز پر یہاں بھی اس قانون کے تحت الگ سے ڈی فیمیشن کیسز سننے کے لیے جج مقرر کرنے کی درخواست کی جو چھ مہینوں میں فیصلہ کردیتے ہیں۔ آگے افتخار چوہدری کا (معزولی) کیس علیحدہ چل پڑا، افتخار چوہدری اور میڈیا ملے ہوئے تھے، انہوں نے اس کو ویسے ہی ٹھپ کرا دیا۔‘
مزید پڑھیں
-
پاکستانی صحافی سوشل میڈیا پر ٹرولنگ سے کیسے بچتے ہیں؟Node ID: 416986
-
’نواز شریف تین بار وزیراعظم بنے، تینوں بار فوج سے لڑے‘Node ID: 427291