پاکستان کے سابق نائب وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ ق کے بانی رہنما چوہدری پرویز الہٰی نے کہا ہے کہ نواز شریف آرمی چیف مقرر کرنے کے بعد اس کو اتفاق فاؤنڈری کا ملازم سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور ان کے تصور میں یہ بات آ جاتی ہے کہ اب انہوں نے اس کو ملازم رکھ لیا ہے تو اس کی ہر چیز، اس کا ضمیر، اس کا کام ان کے ہی پاس ہے۔
اردو نیوز کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ نواز شریف فوج سے لڑنے سے باز نہیں آتے اور تین بار کے وزیراعظم تینوں مرتبہ فوج سے لڑے۔
پرویز الہٰی نے یہ بھی کہا کہ ’بدقسمتی سے ابھی تک نواز شریف کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ جب وزیراعظم بنتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آرمی چیف ان کی جیب میں ہے۔‘
سپیکر پنجاب اسمبلی کے بقول پرویز مشرف، جن کو خود نواز شریف نے جنرل جہانگیر کرامت پر ترجیح دے کر نیا آرمی چیف بنایا تھا، سے ان کے اختلافات اس لیے ہوئے تھے کہ وہ کور کمانڈرز کی تقرری تک میں مداخلت کرتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’(نواز شریف) کہتے تھے کہ اس کور کمانڈر کو ادھر لگا دیں، اس کور کمانڈر کو ادھر لگا دیں۔ انہوں (جنرل مشرف) نے کہا کہ جی یہ تحصیلدار والا کام نہیں ہے ہمارا۔ یہ آرمی چیف نے فیصلہ کرنا ہے کہ کس کور کمانڈر کو کہاں لگانا ہے میں نے۔ یہ ملک کی سرحدوں کا کام ہے، یہ کوئی پوسٹنگ ٹرانسفر والا مسئلہ نہیں ہے۔ بنیاد یہاں سے پڑی تھی، پھر (معاملہ) بڑھتا گیا۔‘
سابق نائب وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’جتنے چیفس انہوں نے مقرر کیے، خواہ مخواہ (ان سے) لڑے۔ جہانگیر کرامت نے ان کی حکومت بچائی تھی، ان سے خواہ مخواہ لڑائی کی، ان کی مدت پوری نہیں ہونے دی اور ان کو نکال کر پرویز مشرف صاحب کو لے کر آئے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے تو نہیں کہا تھا ان (پرویز مشرف) کو لے کر آئیں، لے کےآئے تھے، تو پھرلڑائی کیوں کی؟‘
پرویزالہٰی نے انکشاف کیا کہ پیپلز پارٹی دور میں حکومت اور فوج کے مابین چپقلش یوسف رضا گیلانی کی وجہ سے شروع ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آصف زرداری صاحب کی (فوج سے) بہت بنی ہے۔ آصف زرداری کی اس حد تک بنی ہے کہ پرویز کیانی نے اتنی ایکسٹینشن نہیں مانگی جتنی انہوں نے دے دی۔ اس وقت فوج اور زرداری بالکل ایک پیج پر تھے، البتہ خرابی جو بعد میں کی تھی، وہ یوسف رضا نے کی تھی، جس کو پھر انہوں نے ٹھیک کیا اور یوسف رضا گیلانی کو پھر افتخار چوہدری صاحب نے نکال دیا۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ آصف زرداری نے حکومت بچانے کے لیے ان سے مدد مانگی تھی اور انہوں نے ان کا ساتھ دے کر پیپلز پارٹی حکومت کے پانچ سال پورے کروائے۔
پرویز الہٰی کے مطابق ’چونکہ آصف زرداری کی حکومت فیل ہو گئی تھی، زرداری صاحب نے خود رابطے کیے تھے اور ایم کیو ایم ان کو چھوڑ کر چلی گئی تھی، تو یوسف رضا گیلانی ہمارے گھر پہنچ گئے کہ ہمارا ساتھ دیں (نہیں تو) حکومت بس پھر ختم ہو جائے گی، ہم (پیپلز پارٹی) نے تو پانچ سال بھی پورے نہیں کیے۔ پھر اس وقت ہم نے ان کے پانچ سال بھی پورے کروائے۔‘
ایک سوال کے جواب میں مسلم لیگ ق کے رہنما نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ان کے خاندان کی سیاست فوج کے دم سے ہے اور اس کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتے۔
ان کے بقول ’جو ہمارے بزرگوں نے سیاست کی تھی، وہ فوج کے خلاف کی تھی۔ وہ تو سیاست میں اس سے پہلے تھے۔ اسی لیے ایوب خان نے چوہدری ظہور الہٰی کے خلاف کارروائی کی۔ ایوب خان نے تو حکومت میں آتے ہی ان کو گرفتار کر لیا کہ آپ کی کوٹھی کی دیوار غلط بنی ہوئی ہے۔ چوہدری ظہور نے کہا کہ میری دیوارغلط نہیں، آپ لوگ غلط ہیں۔ مقابلے بھی ہوتے رہے ہیں، اپنی ساکھ کو بھی انہوں نے قائم رکھا، جیلیں بھی کاٹیں۔‘
سابق نائب وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’جب پرویز مشرف نے ہماری پارٹی کو دھوکہ دیا تو ہم تو کھڑے رہے، میں تو اپوزیشن لیڈر تھا اور اس وقت فوج کدھر تھی۔ فوج تو کوئی نہیں تھی، فوج کے بغیر ہم نے الیکشن لڑا، اس کے بعد بھی ہم نے الیکشن لڑا، اس کے بعد بھی ہم اسمبلیوں میں بیٹھے تھے۔‘
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ تمام پاکستانیوں کو اپنی فوج کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہییں کیونکہ اس کا مطلب پاکستان کو مضبوط کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت کے اتحادی بھی ان کو فوج کے ساتھ تعلقات مضبوط رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
ان کے مطابق ’اتحادی بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ایک پیج پر ہونے سے پاکستان بھی بہتر ہو گا اور یہاں ترقی بھی ہوگی۔‘
اس سوال پر کہ فوج اور تحریک انصاف کے ایک پیج پر ہونے میں کمال عمران خان کا ہے یا آرمی چیف کا؟ پرویز الہی نے کہا کہ ’یہ دونوں کا کمال ہے۔‘
ان کے بقول کہ ’یہ اپنی فوج ہے، مودی کی فوج کے ساتھ تو نہیں گئے، اپنی فوج جو ہے، یہ ملک کی حفاظت بھی کرتی ہے اور پاکستان کی جو بنیاد ہے اس کو کمزور نہیں ہونے دیتی۔ فوج کو مضوط کرنا، پاکستان کو مضبوط کرنا ہے۔‘
سپیکر پنجاب اسمبلی کے بقول انہوں نے نواز شریف سمیت ہر تعلق داری کو آخری دم تک نبھانے کی کوشش کی اور کسی کو خود نہیں چھوڑا، چاہے وہ پرویز مشرف ہو یا شریف خاندان۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم شریفوں کی خاطر جیل گئے، ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ جس کا ساتھ دیا ہے اس کا پورا ساتھ دیا اور جس وقت وہ ہمیں چھوڑ گئے، پھر تو ہمارے پاس بھی کوئی چوائس نہیں رہی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کئی دفعہ یہ بھی ہوا ہے کہ انہوں نے ہمارے خلاف بھی اقدامات کیے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم نے اس وجہ سے ساتھ دیا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ ان کو چھوڑ گئے ہیں۔ بعد میں پھر ان کو جب احساس ہوا کہ وہ غلط تھے تو پھر وہ معافیاں مانگتے رہے۔ یہ نواز شریف کی حکومت میں ہوا ہے۔ انہوں نے باقاعدہ معافیاں مانگی ہیں، سارے خاندان نے آکر معافیاں مانگی ہیں۔‘