Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اس لڑکی کو اچھی طرح سے معلوم تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے‘

جرمنی کے ایک پروفیسر کے مطابق سیکس ایجوکیشن کا یہ کورس پورے ملک میں کرانا چاہیے۔ (فوٹو:اے ایف پی)
جرمنی کے دارالحکومت برلن کے ایک کلاس روم میں کچھ طلبا اکھٹے ہیں اور وہ ایک ویڈیو دیکھ رہے ہیں جس میں ایک مرد اور عورت کو اکٹھے بیٹھے مشروب پیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
کلاس روم اور ٹی وی سکرین کا ماحول اس وقت جلدی سے بدل جاتا ہے جب مرد خاتون کو گھر لے جاتا ہے، دروازہ بند کر دیتا ہے اور جب وہ باہر جانے کی کوشش کرتی ہے تو اس سے بدسلوکی کرتا ہے۔
اس ویڈیو پر اپنا ردعمل دینے کے لیے شام، عراق اور افغانستان کے پناہ گزینوں کو مدعو کیا گیا تھا۔
ان میں سے ایک نے کہا کہ’ خاتون نے زیادہ پی رکھی ہے اس لیے وہ اکھٹے ہیں اور لڑکی کی زیادہ مدہوشی کی وجہ سے مرد نے فائدہ اٹھایا اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔‘
دوسرے نے کہا ’اس لڑکی کو اچھی طرح سے معلوم تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔‘

سیکس ایجوکیشن کے سیشن میں جنسی تعلقات سے متعلق سوالات پوچھے گئے (فوٹو:اے ایف پی)

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ورکشاپ کی منتظم کیرولہ پیٹراسکی نین نے پناہ گزینوں کو بتایا کہ اس قسم کے واقعات اکثر برلن میں ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ  نوجوانوں کی زیادہ شراب نوشی اور منشیات لینے کی وجہ سے اس قسم کے واقعات ہو جاتے ہیں۔
غیر سرکاری ادارے نارویجین گروپ ہیرو کی جانب سے اس سیشن کا انعقاد کیا گیا تھا، اس میں تعلقات سے متعلق مختلف سوالات پوچھے گئے جس میں ایک یہ سوال بھی تھا ’آپ کو کیسے معلوم ہوگا کہ ایک عورت آپ کے ساتھ تعلقات رکھنے کی خواہش مند ہے؟ اور آپ کیسا ردعمل دکھائیں گے جب اس خاتون کا جواب ’نا‘ میں ہوتا ہے۔‘
یہ ہدایات ان پنا گزینوں کی دی جارہی تھیں جن کے ملکوں میں عوامی جگہوں میں پیار کا اظہار کرنے پر پابندی ہے، جہاں لڑکے اور لڑکیاں الگ سکولوں میں پڑھتے ہیں اور شادی کے بعد جنسی ہراس کو جرم تصور نہیں کیا جاتا۔
حال ہی میں جرمنی میں ایک اجتماعی زیادتی کے کیس میں 11 پناہ گزینوں کو مشتبہ پایا گیا تو پناہ گزینوں سے متعلق جرمنی کی اینٹی گریشن کی کمشنر نے پناہ گزینوں کے لیے سیکس ایجوکیشن متعارف کروائی۔

جرمنی میں پناہ گزینوں کے داخلے کے بعد متعدد ریپ کے کیسز سامنے آئے تھے (فوٹو:اے ایف پی)

2015 میں جرمنی میں متعدد ریپ کے ایسے کیسز سامنے آئے جن میں پناہ گزین ملوث پائے گئے۔  2018 میں ریپ اور قتل کے ایک کیس میں ایک افغان پناہ گزین ملوث تھا، ان کیسز کی وجہ سے پناہ گزینوں کو ملک میں جگہ دینے پر جرمنی کی سربراہ اینگلا میرکل کو دائیں بازو کی جانب سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔
جرمنی کے وفاقی اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس جرمنی میں تارکین وطن کی جانب سے جنسی ہراس کے کیسوں میں 15 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ریپ کے کیسز سامنے آنے کے بعد 2013 اور 2015 کے درمیان ناروے میں بھی پناہ گزینوں کو جنسی ہراس کے واقعات کے روک تھام سے متعلق کورس کروائے گئے تھے۔
مرسبرگ یونیورسٹی کے جنسیات کے ماہر پروفیسر ہینز یارگین واس کہتے ہیں کہ سیکس ایجوکیشن کا یہ کورس پورے ملک میں کرانا چاہیے۔
تاہم پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والا ایک غیر سرکاری ادارہ گروپ پرو اسیل کا کہنا ہے کہ ہم اقدار روزمرہ زندگی میں سیکھتے ہیں نہ کہ کلاس میں، ان پناہ گزینوں کو مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔

شیئر: