Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوزیشن جماعتیں اب کہاں کھڑی ہیں؟

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حیران کن ناکامی اپوزیشن کے لیے بہت بڑی خفت کا باعث بنی ہے اور شاید آنے والے کچھ عرصے تک حزب اختلاف اس شکست کے آفٹر شاکس کا سامنا کرتی رہے گی۔ سینیٹ کی تاریخ میں پہلی بار چیئرمین کے خلاف پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اپوزیشن رہنما اس قدر پرامید تھے کہ ووٹنگ سے ایک دن قبل ہی اسے جمہوریت کی فتح قرار دے رہے تھے۔

مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے اپوزیشن کے عشائیے سے خطاب میں کہا تھا کہ جن کے پیچھے عوام ہوتے ہیں ان کو شکست دینا آسان کام نہیں ہوتا، مگر جب جمعرات کی شب تحریک عدم اعتماد کے حق میں صرف 50 ووٹ نکلے تو واضح ہو گیا کہ یا تو یہ کام آسان ہے یا پھر اپوزیشن کے پیچھے عوام نہیں۔

وہ چودہ لوگ کہاں گئے؟


چیئرمین صادق سنجرانی نے الیکشن سے قبل ہی اپنی کامیابی کا دعویٰ کیا تھا، تصویر: اردو نیوز

سینیٹ میں اپوزیشن لیڈرراجا ظفرالحق نے جب تحریک عدم اعتماد پیش کی تو 64 اراکین نے کھڑے ہو کر ان کی تائید کی مگر جب خفیہ رائے شماری کا نتیجہ سامنے آیا تو صرف 50 ووٹ تحریک کے حق میں نکلے۔ سوال یہ ہے کہ وہ 14 لوگ کدھر گئے؟ وہ 14 لوگ کس پارٹی کے تھے؟ ان 14 سینیٹروں کا ضمیر جاگا یا وہ کسی دباؤ کا شکار ہوئے۔

شکست خوردہ اپوزیشن خود بھی ان سوالوں کے جواب ڈھونڈ رہی ہے۔ اجلاس کے بعد اپوزیشن رہنما صحافیوں سے بات کرنے سے گریزاں رہے۔ چلتے چلتے پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے میڈیا کے سوالوں کے جواب میں اتنا کہا کہ حکومت کے پاس صرف وہی 33 ووٹ ہی تھے جو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ڈالے گئے، ’باقی جو ہوا وہ ڈھونگ تھا۔‘



اپوزیشن کی بڑی جماعتیں چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لیے پرامید تھیں، تصویر: اے ایف پی

جمہوری اخلاقیات پر سوالیہ نشان

پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ دینے والے 14 ارکان نے ہماری جمہوریت میں اخلاقیات کے حوالے سے بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ تین عشروں کے بعد بھی شاید ابھی تک ہارس ٹریڈنگ اور چھانگا مانگا کی سیاست پاکستان میں زندہ ہے جہاں پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ دیا جاتا ہے اور خفیہ رائے شماری میں کسی پر بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ یاد رہے کہ جمعرات سے قبل اپوزیشن نے درجن بھر سے زائد اجلاس، ظہرانے اور عشائیے منعقد کیے تاکہ اپنے حامی سینیٹرز کی تعداد دکھا سکے۔ دلچسپ بات ہے کہ ان تمام اجلاسوں میں اپوزیشن کے سینیٹرز کی تعداد 53 سے 60 تک رہی مگر ’نادان گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا‘ کے مصداق ووٹنگ کے وقت صرف 50 ارکان ہی بات کے پکے نکلے۔



اپوزیشن کی اے پی سی میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ ہوا تھا، تصویر: مسلم لیگ ن میڈیا

اپوزیشن اتحاد کا مستقبل

جمعرات کی شام بہت سارے لبوں پر یہ سوال تھا کہ اپوزیشن نے آخر چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک کا فیصلہ ہی کیوں کیا تھا جس کا نتیجہ اتنی بڑی ہزیمت کی صورت نکلا۔ دراصل یہ فیصلہ اپوزیشن نے رواں برس 26 جون کو آل پارٹیز کانفرنس میں کیا تھا تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ اے پی سی صرف نشستن گفتن برخاستن نہیں تھی، تاہم یہ فیصلہ اپوزیشن کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ اب نہ صرف اپوزیشن کا مورال ڈاؤن ہو گا بلکہ ایک دوسرے پر شکوک و شبہات بھی بڑھیں گے۔

حکومت کے خلاف تحریک

بظاہر جمعرات کی شکست اپوزیشن کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کے لیے بھی بڑا دھچکہ ہے لیکن عوامی سیاست اور ایوان کی سیاست میں فرق ہوتا ہے اس لیے ضروری نہیں کہ ایوان میں شکست کے بعد جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا اکتوبر کا آزادی مارچ یا مریم نواز کی رابطہ عوام مہم بھی ماند پڑ جائے تاہم یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کیونکہ جعمرات کے نتیجے نے اپوزیشن کے اس بیانیے کو بھی تقویت دی ہے کہ طاقت کے زور پر عوام کے ووٹ کو بدلا جاتا ہے۔

  حکومت کی فتح یا جمہوریت کی شکست؟

سینیٹ میں جیت کے بعد جہاں اپوزیشن کی صفوں میں سوگ کا منظر ہے وہاں حکومت خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے۔ بلاشبہ اس سے حکومت کا مورال بہتر ہوا ہے اور وقتی طور پر حکومت کو تقویت ملے گی۔ حکومت مزید کوشش کرے گی کہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوں جیسا کہ وفاقی وزیر سائنس فواد چوہدری نے نتائج کے فوری بعد اپوزیشن کو مشورہ دیا کہ وہ مولانا فضل الرحمان کی جیب ٹٹولے۔ حکومت کی فتح کے باوجود جمعرات کے نتائج کو جمہوریت کی فتح نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ عوام کا سیاسی نمائندوں پر اعتماد مزید متزلزل ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے مطابق جمعرات کو جمہوریت کا جنازہ نکلا ہے۔    

شیئر: