انڈیا نے کشمیر میں اپنی فوجیوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
’کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ کیا ہو رہا ہے، کیا ہونے والا ہے، کل کیا ہوگا، جنگ ہوگی یا آرٹیکل 35 اے کو ختم کر دیا جائے گا۔ سب لوگ سوچ رہے ہیں کہ کچھ نہ کچھ بڑا ہونے والا ہے، جس کے لیے وہ تیار ہو رہے ہیں، پیٹرول پمپس پر پیٹرول ختم ہو گیا ہے اور مارکیٹوں سے عام زندگی میں کھانے پینے کی اشیا آسانی سے نہیں مل رہیں کیونکہ غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے لوگ سب کچھ ذخیرہ کر رہے ہیں۔‘
اردو نیوز کے ساتھ ان خیالات کا اظہار انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ کے ایک رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیا۔
ان کے مطابق ’جب سے پیدا ہوا ہوں کشمیر کے حالات خراب ہیں مگر پہلے کبھی صورت حال اتنی غیر یقینی نہیں تھی۔ جو بھی ہو، کچھ نہ کچھ پتا ضرور ہوتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ جیسے برہان وانی کے مارے جانے کے بعد حالات بہت خراب ہوئے تھے لیکن سب جانتے تھے کہ کرفیو لگا ہوا ہے، جو کچھ دن میں ختم ہو جائے گا لیکن اب تو اعلانیہ کرفیو بھی نہیں پھر بھی ہر طرف عجیب سی افراتفری ہے۔‘
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے محکمہ داخلہ نے دو اگست جمعے کو ایک ایڈوائزری جاری کی تھی جس میں کشمیر کی سیر کے لیے آئے سیاحوں اور اس کی پہاڑیوں میں واقع ہندوؤں کے مقدس مذہبی مقام امرناتھ غاروں کی یاترا کے لیے آئے ہندو یاتریوں کو جلد از جلد کشمیر چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔
اس حکومتی ایڈوائزری کے بعد سری نگر میں واقع نیشنل انسٹیٹویٹ آف ٹیکنالوجی میں زیر تعلیم مختلف انڈین ریاستوں کے طلبا کو بھی ادارہ خالی کر کے گھر لوٹنے کا کہا گیا۔
محکمہ داخلہ کے مطابق یہ اقدامات جموں و کشمیر میں دہشت گردانہ حملے کے خدشے کے پیش نظر کیے گئے ہیں تاہم عام کشمیریوں کا خیال ہے کہ ان سے کچھ چھپایا جا رہا ہے۔
پلوامہ کے رہائشی کشمیری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مزید کہا 'گورنر ستیہ پال نے ہفتے کو کہا تھا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں لیکن اس کے باوجود لوگ کشمیر چھوڑ رہے ہیں، ایل او سی پر شیلنگ ہو رہی ہے اور کرفیو جیسی صورتحال ہے۔ ایسے میں پرائم منسٹر مودی کی خاموشی نے لوگوں کے خدشات میں مزید اضافہ کیا ہے۔'
بات ختم کرتے ہوئے انہوں نے کہا 'میں آپ سے اس لیے بات کر رہا ہوں کہ آپ میرے دوست کے جاننے والے ہیں ورنہ حالات ایسے ہیں کہ مجھے ایک منٹ بات کرنے پر جیل میں بھی ڈالا جا سکتا ہے۔'
سری نگر کے ایک اور رہائشی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا 'کشمیر پچھلے تین چار روز سے افواہوں میں گھرا ہوا ہے، کشمیر میں اضافی فوج کی تعیناتی، ٹی وی پر چلنے والی خبروں اور حکومتی احکامات نے لوگوں کے ذہن میں شک ڈال دیا ہے کہ شاید کچھ ایسا ہونے والا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔'
ان کے بقول 'انڈیا نواز مقامی سیاستدان ایک ہی بات پر بحث کر رہے ہیں کہ شاید انڈین سرکار آئین کے آرٹیکل 35 اے کو ختم کر رہی ہے لیکن ہو سکتا ہے کچھ اور ہونا ہو۔ میرے خیال میں ٹی وی پر چلنے والی خبروں اور مقامی سیاستدانوں کے بھٹکانے سے ہم جیسے عام لوگ کچھ زیادہ ہی خوف زدہ ہو گئے ہیں۔'
انہوں نے کہا 'اگر حکومت 35 اے کے ساتھ کچھ کرتی ہے تو پھر یہ بات طے ہے کہ ماحول مزید خراب ہوگا۔'
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ایک سنیئر صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ دیگر حکومتی احکامات کے ساتھ ساتھ کشمیر میں ہزاروں اضافی فوجیوں کی تعیناتی سے مقامی آبادی اس خوف میں مبتلا ہے کہ حکومت کشمیر کی ڈیموگرافی (آبادی کی تقسیم اور حدود اربعہ) تبدیل کرنے جا رہی ہے۔
'کشمیریوں کو ڈر ہے کہ اگر آرٹیکل 35 اور آرٹیکل 370 کو ختم کیا جاتا ہے تو انڈیا کی دیگر ریاستوں کے باسیوں کو وادی میں رہنے اور جائیدادیں بنانے کی اجازت ملے گی بلکہ یہ افواہ بھی اڑ رہی ہے کہ انڈین حکومت ہندو اکثریت والے علاقے جموں کو الگ ریاست جبکہ لداخ اور کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام خطے قرار دینے جا رہی ہے۔'
'یہ سب افواہیں اور مفروضے ہیں، حتمی طور پر کوئی نہیں جانتا کہ کچھ ہونے والا ہے یا نہیں'
جب ان سے کشمیر سے سیاحوں اور یاتریوں کے انخلا کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا 'ایڈوائزی جاری ہونے کے بعد سے فوج کے اہلکار ہوٹلوں میں جا جا کر خود سیاحوں کو کہہ رہے ہیں کہ وہ جلد کشمیر چھوڑ دیں جس کے نتیجے میں بہت سارے سیاح واپس بھی جا چکے ہیں اور شاید وہ اب کبھی واپس یہاں نہ آئیں۔'
خیال رہے کہ انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر اور انڈیا کے موجودہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے رواں سال کے آغاز میں اپنی الیکشن مہم کے دوران آرٹیکل 35 اے کو منسوخ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا 'آرٹیکل 35 اے کو ختم کرنا 1950 سے بی جے پی کا منشور ہے اور ایسا 2020 میں ہو گا۔ اب تک اس ایسا نہیں کیا جا سکا کیونکہ بی جے پی کو ایوانِ بالا کے ممبران کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں۔'
آرٹیکل 35 اے اور آرٹیکل 370 ہے کیا؟
انڈین آئین کے آرٹیکل 35 اے کے مطابق کوئی بھی فرد صرف اسی صورت میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا شہری بن سکتا ہے اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔ کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں و کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا اور نہ ہی یہاں کا مستقل شہری بن سکتا ہے۔ یہ آرٹیکل کشمیر کی ریاستی قانون ساز اسمبلی کو اپنے باشندوں کے حقوق اور مراعات کی حفاطت کے لیے خود قانون سازی کرنے کا اختیار بھی دیتا ہے۔
1950 میں جب انڈیا نے جمہوریہ کی شکل اختیار کی تو آرٹیکل 35 اے کے تحت ہی آرٹیکل 370 بھی انڈین آئین میں شامل ہوا۔ یہ آرٹیکل انڈین یونین کے اندر ریاست جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت کو تسلیم کرتا ہے۔
آرٹیکل 370 کے تحت انڈیا کی یونین حکومت، خارجہ، دفاع اور مواصلات کے شعبوں میں ریاست کشمیر کی حکومت کی رائے سے مناسب قانون سازی کر سکتی ہے۔ جبکہ دوسرے تمام معاملات میں ریاست کی اپنی قانون ساز اسمبلی کی مرضی کے بغیر کوئی مداخلت نہیں ہو سکتی۔