مودی کے مطابق جموں و کشمیر سے متعلق اہم بل کا بھرپور حمایت کے ساتھ منظور ہونا یادگار لمحہ ہے۔ فوٹو اے ایف پی
انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کے معاملے پر لمبی خاموشی توڑتے ہوئے کہا ہے کہ جذباتی بلیک میلنگ پر یقین رکھنے والے مفاد پرست گروپوں نے برسوں سے عوام کو بااختیار بنانے کی پرواہ نہیں کی لیکن اب جموں و کشمیر ان بیڑیوں سے آزاد ہو چکا ہے۔
انہوں نے کشمیر پر بات کرنے کے لیے متعدد ٹویٹس کرتے ہوتے لکھا کہ ’میں جموں و کشمیر کے اپنے بھائی بہنوں کو ان کی جرات اور وسیع نظری کے لیے سلام پیش کرتا ہوں۔‘
دلچسپ امر یہ ہے کہ مودی نے اپنی ٹویٹس انگریزی، ہندی، لداخی اور اردو زبان میں کی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر سے متعلق اہم بل کا بھرپور حمایت کے ساتھ منظور ہونا ایک یادگار لمحہ ہے اور جموں و کشمیر کو اس سے فائدہ ہوگا۔
میں جموں و کشمیر کے اپنے بھائی بہنوں کو ان کی جرأت اور وسیع النظری کے لئے سلام کرتا ہوں۔ برسوں سے مفاد پرست گروپ جو جذباتی بلیک میلنگ میں یقین رکھتے تھے، انہوں نے عوام کو بااختیار بنانے کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ جموں و کشمیر اب ان بیڑیوں سے آزاد ہو چکا ہے۔
مودی کے مطابق انڈین حکومت کے ’یہ اقدامات جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو قومی دھارے میں لائیں گے اور انہیں اپنی ہنرمندی اور صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کے وسیع مواقع فراہم کریں گے۔‘
انہوں نے لداخ کے عوام کو خصوصی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ خوشی کی بات ہے کہ لداخ کی جانب سے مرکز کا زیر انتظام علاقہ قرار دیے جانے کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوا۔ ’یہ فیصلہ اس خطے کی خوشحالی کو یقینی بنائے گا۔‘
مودی نے اسمبلی میں بل پیش کرنے والے اپنے وزیر داخلہ امیت شاہ سمیت انڈیا کے نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین و سپیکر کو مبارکباد بھی پیش کی۔
خیال رہے کہ پیر 5 اگست کو انڈیا نے صدارتی حکم نامے کے ذریعے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔
انڈیا کے ایوان بالا میں کشمیر کے خصوصی اختیارات والے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھے جس پر صدر نے پہلے ہی دستخط کر دیے تھے۔
اس کے ساتھ ہی لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دے دیا گیا تھا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہو گی جبکہ جموں و کشمیر بھی مرکز کے زیر انتظام ہوگا لیکن وہاں اسمبلی ہو گی۔
انڈیا کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ صدر جمہوریہ نے صدارتی فرمان پر دستخط کر دیے ہیں جس کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت ریاست کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔
خصوصی حثیت ختم ہونے کے بعد کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
پاکستان نے انڈین حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا۔
ادھر اس معاملے پر بات کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے منگل 6 اگست کو کہا ہے کہ انڈیا نے کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کر کے قائداعظم کے دو قومی نظریے کو درست ثابت کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے اثرات دو ملکوں پر ہی نہیں پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ ’ہم اس کے خلاف اقوام متحدہ دوسرے عالمی فورمز پر اس معاملے کو لے کر جائیں گے۔‘
منگل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کہ پہلے بھی انڈیا نے حملے کی کوشش کی تھی جس کا ہم نے بھرپور جواب دیا۔
’اگر آگے بھی کبھی ایسا ہوا تو پھر یہی کچھ ہو گا اور اگر بات روایتی جنگ کی طرف گئی تو ہمارے سامنے دو راستے ہوں ایک بہادر شاہ ظفر والا اور دوسرا ٹیپو سلطان والا، اور ہم دوسرے راستے کا چنائو کریں گے اور خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے۔‘
انڈیا کے اس فیصلے کے بعد سے کشمیر میں کرفیو لگا ہوا ہے اور مظاہرے ہو رہے ہیں۔