عیدالاضحٰی پر قربانی کے لیے لاکھوں جانوروں کے شہروں اورآبادیوں میں آنے کے باعث کانگو وائرس پھیلنے کے خطرات ایک مرتبہ پھر منڈلانا شروع ہو گئے ہیں۔
کانگو وائرس جس کو طبی زبان میں ’کریمن کانگو ہیمرجک فیور‘ بھی کہتے ہیں، گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے ان علاقوں میں لوگوں کو متاثر کر رہا ہے جہاں جانوروں کی بہتات ہوتی ہے یا پھرویکسینیشن نہیں ہوتی۔
ماہرین کے مطابق کانگو وائرس جانوروں کی جلد پہ پائے جانے والے ایک خاص قسم کے چیچڑ کے کاٹنے سے پھیلتا ہے، اور ان سے میل جول رکھنے والے انسانوں کو متاثر کرتا ہے۔
اس کی وجہ سے انسان پہلے پہل نزلہ، بخار، ڈائیریا، پیٹ درد، یرقان، خارش یا ناک سے اخراج خون جیسے امراض میں مبتلا ہوتا ہے۔ بروقت علاج نہ کروا سکنے کے باعث یہ مرض جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
کانگو کے باعث رواں سال صرف کراچی میں اب تک 6 اموات ہوچکی ہیں۔
محکمہ صحت کی جانب سے جاری کیے گئے ایک ہدایت نامے کے مطابق لوگوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ جانوروں کے قریب جانے سے پہلے ضروری احتیاطی تدابیر کی جائیں۔
ماہرین کے مطابق شہریوں کو جانوروں سے میل جول سے پہلے منہ پرماسک ضرور پہننا چاہیے، بالخصوص قربانی کا جانور لینے کے لیے منڈی جانے سے پہلے کوشش کریں کہ ماسک کے ساتھ ساتھ مکمل آستین والے کپڑے پہنیں تاکہ مویشیوں سے وائرس منتقل کرنے والا کیڑا جلد پراثرانداز نہ ہو سکے۔
مویشیوں کے فضلے سے بھی مچھر مکھی کے ذریعے یہ وائرس پھیل سکتا ہے، اس لیے بھی لوگوں کو پورے کپڑے پہننے اور مچھر مار لوشن جلد پہ لگا کر منڈی آنے کی ہدایت کی جاتی ہے تا کہ ہر قسم کے وائرس سے بچا جا سکے۔
کراچی کے آغا خان ہسپتال کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کے مطابق یہ وائرس چیچڑ کے کاٹنے کے علاوہ متاثرہ شخص کے خون یا دیگر جسمانی رطوبت سے بھی پھیلتا ہے۔ اس وائرس کی علامات متاثر ہونے کے ایک سے تین دن کے عرصے میں ظاہر ہوتی ہیں اور ابتدائی علامات نزلہ اور بخار سے مشابہت رکھتی ہیں۔
اس وقت صرف کراچی شہر اور اس کے مضافات میں سینکڑوں چھوٹی بڑی مویشی منڈیاں لگ چکی ہیں۔ جہاں لاکھوں کی تعداد میں جانور ملک کے مختلف حصوں سے لائے گئے ہیں۔ ایسی صورت میں کانگو وائرس پھیلنے کا خدشہ بہت بڑھ جاتا ہے۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی حکومت کی جانب سے لگائی گئی منڈیوں میں وبائی امراض سے بچاؤ کا سپرے کروایا گیا ہے، تاہم حالیہ بارشوں کے بعد اس کے اثرات زائل ہونے کا خدشہ ہے۔
دوسری طرف غیر قانونی منڈیوں میں کانگو وائرس پھیلنے کا خطرہ کہیں زیادہ ہے، جہاں صفائی اور سپرے کا مناسب انتظام نہیں اورجگہ کی تنگی کی وجہ سے جانور قریب قریب باندھے جا رہے ہیں۔
ایک مویشی فارم کے مالک ناصر اسلم گجر نے اردو نیوز سے اس مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جو جانور باڑے اور مویشی فارمز سے منڈی میں لایا جاتا ہے اس کی مناسب ویکسینیشن ہو چکی ہوتی ہے۔
’’مویشی فارم میں وقتاً فوقتاً حکومتی معائنہ ٹیم بھی آ جاتی ہے اس لیئے ویکسینیشن کا حساب کتاب بھی رکھنا پرتا ہے، لیکن جو جانور گاؤں دیہات اور ارد گرد کے علاقوں سے شہر لایا جاتا ہے اس میں وائرس کی موجودگی کا خدشہ رہتا ہے۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ چونکہ دیہات میں ویکیسنیشن کا کوئی نظام نہیں اور چراگاہوں میں پلنے والے مویشیوں کی ویکسینیشن ویسے بھی نہیں کی جاتی لہٰذا ان میں وائرس موجود ہوسکتا ہے، جو کہ یہاں دیگر مویشیوں میں بھی منتقل ہو سکتا ہے۔“
ابھی تک کانگو وائرس کے علاج کی ویکسین ایجاد نہیں ہوئی لہٰذا طبی ماہرین کے مطابق اس بیماری سے بچاؤ ہی بہترین علاج ہے۔
تاہم پکے ہوئے گوشت میں اس وائرس کے پائے جانے کے امکانات کم ہوتے ہیں، بالخصوص اگر اس کو اچھی طرح آگ پر پکایا جائے تو اس کے تمام اثرات زائل ہو جاتے ہیں۔