لاہور کی رہائشی شاہینہ طارق کی پرسکون زندگی میں چار نومبر 2018 کو اس وقت بھونچال آ گیا جب ان کی 20 سالہ بیٹی رمشا طارق کو ایک پرائیویٹ یونیورسٹی سے دن دھاڑے اغوا کر لیا گیا۔
وہ سیدھی لاہور کے مضافاتی تھانے مناواں پہنچیں اور مقدمہ درج کروانے کی درخواست کی مگر ان کا پالا شاید پہلی دفعہ پنجاب پولیس سے پڑا تھا، لہٰذا جب تین دن تک مقدمہ درج نہ ہوا تو انہیں کسی نے بتایا کہ بغیر رشوت اپنے تحفظ کے لیے کیس بھی درج نہیں ہوتا۔
لہٰذا انہوں نے 20 ہزار روپے متعلقہ اے ایس آئی کو دیے تو تیسرے دن مقدمہ درج ہو گیا۔
مقدمہ تو رشوت دینے کے بعد درج ہو گیا تاہم بیٹی بازیاب نہ ہو سکی ۔
تین ماہ بیٹی کے انتظار میں دن اور رات گنتے گزر گئے اور وہ بازیاب نہ ہوئی تو تنگ آ کر شاہینہ نے براہ راست وزیر اعظم کو شکایت کرنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے 13 فروری 2019 کو پاکستان سیٹیزن پورٹل پر شکایت درج کروائی۔ چھ دن بعد انہیں پیغام موصول ہوا کہ ان کا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔
لیکن ان کی بیٹی گھر واپس نہ آئی۔
انہوں نے دوبارہ پولیس سے رابطہ کیا تو انہیں ایک سینیئر افسر نے مکمل انکوائری کیے بغیر ہی کہہ دیا کہ ان کی بیٹی اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ گئی ہے۔
اس دوران شاہینہ کے بیٹے کو پولیس نے مبینہ طور پر تھانے لے جا کر تشدد کا بھی نشانہ بنایا۔
شاہینہ نے پھر سٹیزن پورٹل کا دروازہ کھٹکھٹایا اور بتایا کہ پولیس ملزمان سے مل گئی ہے۔
25 فروری کو ان کی درخواست پر دوبارہ کارروائی ہوئی اور 20 دن بعد پولیس نے پھر سٹیزن پورٹل پر لکھ دیا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے لیکن لڑکی پھر بھی بازیاب نہ ہوئی۔
خاتون نے فون پر وزیراعظم کے ڈیلیوری یونٹ کو اطلاع دی۔
اس کے بعد یہ کیس وزیر اعظم عمران خان کے براہ راست نوٹس میں آ گیا جس کے بعد وہ خود فائل لے کر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے دفتر پہنچ گئے۔
بس پھر کیا تھا چیف سیکرٹری، آئی جی اور ڈی جی انسداد رشوت ستانی سب حرکت میں آ گئے۔
رمشا بازیاب ہو گئی اور وزیراعظم کو گمراہ کرنے اور خاتون کے ساتھ بدتمیزی کرنے پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن ڈاکٹر انعام وحید سمیت دو افسران کو معطل کرتے ہوئے ان کے خلاف ڈی جی اینٹی کرپشن کو انکوائری کا حکم دے دیا۔
یہ ایک کہانی ہے، عوامی شکایات کے براہ راست ازالے کے لیے بنائے گئے سٹیزن پورٹل کی۔
یہ پورٹل وزیراعظم عمران خان کے ان چند نمایاں منصوبوں میں سے ایک ہے جس کو وہ اپنی حکومت کے ان کارہائے نمایاں میں شمار کرتے ہیں جو ان کے خیال میں تحریک انصاف کی حکومت اور جماعت کی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔
اس پورٹل یعنی موبائل ایپ کے ذریعے کوئی بھی شہری حکومت کے کسی بھی محکمے کے خلاف کوئی بھی شکایت براہ راست وزیر اعظم تک پہنچا سکتا ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے 28 اکتوبر 2018 کو ملکی تاریخ میں پہلی بار آن لائن عوامی شکایات کے اندراج کے لیے سیٹیزن پورٹل کا افتتاح کیا تھا۔
بظاہر دوسرے حکومتی منصوبوں کی طرح یہ منصوبہ بھی سیاسی شعبدہ بازی کا ایک حصہ لگتا تھا اور اس کے بارے میں فوری رد عمل یہی تھا کہ یہ بھی سابقہ حکومتوں کے عوامی رسائی کے منصوبوں کی طرح محض کاغذوں اور کمپیوٹر تک ہی محدود رہے گا۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ لوگوں نے اس کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔
سٹیزن پورٹل پر شکایات کے اعدادوشمار
پاکستان سیٹیزن پورٹل اب تک شاہینہ جیسے قریباً ساڑھے سات لاکھ شہریوں کے مسائل ’حل‘ کر چکا ہے اور ان میں سے دو لاکھ سے زائد لوگوں نے اس بات کی تصدیق بھی کر دی ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پورٹل کےسربراہ عادل صافی نے بتایا کہ اب تک قریبا 11 لاکھ لوگ اس ایپلی کیشن کو ڈاؤن لوڈ کرکے پورٹل پر خود کو رجسٹر کروا چکے ہیں اور ان میں سے چوالیس فیصد اپنی شکایات کے مکمل حل پر اطمینان کا اظہار کر چکے ہیں۔
عادل صافی کے مطابق چند موضوعات کے سوا قریباً ہرعوامی مسئلے پر ہر پاکستانی شہری کہیں سے بھی اپنی شکایت درج کروا سکتا ہے اور پورٹل پر درج کروائی گئی شکایت کا ازالہ اکتالیس دن کے دوران کر دیا جاتا ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اب تک درج کروائی گئی شکایات میں سے سب سے زیادہ شکایات وفاقی حکومت کے محکموں کے حوالے سے درج کروائی گئی ہیں جن کی تعداد قریباً تین لاکھ ہے، جبکہ پنجاب میں چوہتر ہزار، خیبر پختونخوا میں بیس ہزار، سندھ میں تیرہ ہزار اور بلوچستان میں دوہزار شکایات درج کروائی گئی ہیں۔
وفاق میں سب سے زیادہ شکایات وزارت پانی و بجلی، وزارت داخلہ اور وزارت پٹرولیم کے خلاف آئی ہیں جن میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ، لائن فالٹ، سائبر کرائمز اور کرپشن کی شکایات سر فہرست ہیں۔
شکایات کیا واقعی حل ہوتی ہیں؟
سوشل میڈیا پر جائزہ لیا جائے تو صارفین کی خاصی تعداد پورٹل پر شکایات کے ازالے سے مطمئن نظر آتی ہے مگر بعض صارفین کا خیال ہے کہ افسران رمشا کیس کی طرح جعلی طور پر ان کی شکایت حل ہو جانے کا سٹیٹس ڈال دیتے ہیں۔
اس حوالے سے پورٹل کے سربراہ عادل صافی کا کہنا تھا کہ حل ہو جانے والی شکایات کا ایک بڑا آڈٹ چند ہفتوں میں کروایا جائے گا تاکہ پتا چلایا جا سکے کہ شہریوں کے مسئلے سچ مچ حل ہوئے یا پورٹل پر سرکاری افسران کی طرف سے غلط معلومات ڈال دی گئیں۔
تاہم عادل صافی کے خیال میں پورٹل کا اجرا بذات خود پاکستان میں ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رمشا کیس کے نتائج نے پولیس اہلکاروں میں محاسبے کا خوف ڈال دیا ہے۔
اسی طرح وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے میں متعدد افسران کو اسی قسم کے فراڈ کے بعد وزیراعظم کے دفتر کی طرف سے معطل کیا گیا جس کے بعد اب کسی بھی محکمے کے لوگ پورٹل پر کی گئی شکایت کو معمولی اور بے اثر نہیں سمجھتے اور ایکشن لیتے ہیں۔
پورٹل کام کیسے کرتا ہے؟
جونہی کوئی شہری ایپلی کیشن کے ذریعےکسی محکمے کے حوالے سے شکایت درج کرتا ہے یہ خود کار طریقے سے متعلقہ محکمے تک پہنچ جاتی ہے جہاں ایک سینیئر فوکل پرسن اس پر کارروائی شروع کر دیتا ہے۔
فوکل پرسن اپنے محکمے کے حوالے سے کمپیوٹر پر تمام شکایات دیکھ سکتا ہے۔ بیس دن تک معاملہ حل نہ ہونے کی صورت میں شکایت ایک درجہ اوپر چلی جاتی ہے جہاں اس کا رنگ سرخ ہو جاتا ہے۔ اور یہ شکایات سینیئر افسران تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ اگر معاملہ اکتالیس دن تک بھی حل نہ ہو تو شکایت ایک درجہ اور اوپر پہنچ جاتی ہے اور اس کا رنگ سیاہ ہو جاتا ہے۔ اب یہ شکایت براہ راست وزیراعظم کا دفتر حل ہونے تک مانیٹر کرتا رہتا ہے اس سے یہ تاثر جاتا ہے کہ وزیراعظم محکموں کو مانیٹر کر رہے ہیں۔
وزیراعظم کے دفتر میں عادل صافی کے ساتھ درجن بھر افراد پورے ملک میں موجود سرکاری محکموں کی کارکردگی کے حوالے سے شکایات کا جائزہ لیتےرہتے ہیں۔
کونسی شکایات منع ہیں؟
سرکاری افسران کو ہدایت دی گئی ہے کہ چند مخصوص طرز کی شکایات پر کارروائی میں احتراز برتا جا سکتا ہے۔ ان میں عدالتی معاملات، نجی یا خاندانی جھگڑے، خفیہ یا حساس معلومات ، قومی سلامتی کے معاملات، غیر قانونی معاملات، ملازمت کے جھگڑے اور دہری شکایات شامل ہیں۔
پالیساں بدل دینے والی شکایات
سٹیزن پورٹل کے ذریعے متعدد ایسی عمومی شکایات سامنے آئیں جن کی وجہ سے وزیراعظم نے حکومت کو نئی پالیسیاں بنانے یا پرانی پالیسیاں بدلنے کی ہدایات جاری کیں۔
ان میں انگوٹھے کے نشانات مٹ جانے والے شہریوں کے لیے نادرا کا نیا ضابطہ کار بنوانا ، انٹرن شپ پروگرام کے انتیس ہزار بچوں کے بقایا جات کی ادائیگی ، پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کے پرانے رہائشیوں کو بجلی و گیس کے کنکشنز کی فراہمی شامل ہیں۔ اسی طرح بیرون ملک پاکستانیوں سے رقوم بھیجنے پر بینکوں کی طرف سے لی جانے والی فیس کی واپسی بھی سٹیزن پورٹل پر شکایت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔
وزیراعظم کی دلچسپی
عادل صافی کے مطابق ’’وزیراعظم اس پراجیکٹ کو خاص اہمیت دیتے ہیں اور اپنے پرنسپل سیکرٹری کے ذریعے قریباً روزانہ پیش رفت کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ وہ تبدیلی ہے جس کا وعدہ انہوں نے کیا تھا۔‘‘
سیاسی مداخلت نہ ہونے پر لیڈر ناخوش
سٹیزن پورٹل کے ذریعے جب کسی کی شکایت کا ازالہ کیا جاتا ہے تو اس کی سیاسی شناخت نہیں پوچھی جاتی جس کی وجہ سے یہ نہیں معلوم ہو سکتا کہ شکایت کنندہ تحریک انصاف کا حامی ہے یا مخالف ۔
عادل صافی کے مطابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے چند با اثر رہنماؤں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا کہ اگر سب کے کام ہوں گے تو ان کے کارکن پوچھیں گے کہ انہیں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ووٹ دینے کا کیا فائدہ ہوا جب کہ مخالف ووٹرز کے کام بھی اسی ترجیح کے ساتھ کیے جا رہے ہیں۔
عوام کے ڈیٹا کی پرائیویسی
عادل صافی تسلیم کرتے ہیں کہ سٹیزن پورٹل کے ذریعے لوگوں کا ڈیٹا حکومت کی رسائی میں ہوتا ہے مگر ان کا کہنا تھا کہ ہر شہری کے پاس حق ہے کہ پورٹل پر اپنی معلومات جیسے نام پتا وغیرہ خفیہ رکھ سکتا ہے۔ تاہم اگر وہ معلومات دیتا بھی ہے تو وہ صرف چند بااختیار حکومتی اہلکار دیکھ سکتے ہیں۔
ان سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی شہری کسی با اثر پولیس اہلکار کے خلاف شکایت کرے تو کیا گارنٹی ہے کہ وہ اہلکار اسے انتقام کا نشانہ نہیں بنائے گا تو ان کا کہنا تھا کہ جو حکومتی شخص پورٹل کے ذریعے کسی کی معلومات کو کلک کرتا ہے، سسٹم اس کا ریکارڈ بنا لیتا ہے اور بعد میں اگر شکایت کنندہ کو کوئی نقصان پہنچے تو ریکارڈ کے ذریعے کلک کرنے والے شخص کو شامل تفتیش کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرکاری افسران کے خلاف شکایات کی تحقیقات ان سے ایک درجہ سینیئرافسران کو تفویض کی جاتی ہیں اورعمومی تاثر کے برعکس اس بات کے امکانات نہیں ہیں کہ جس کے خلاف شکایت کی جائے، اسی افسر کے پاس معاملہ انکوائری کے لیے بھیج دیا جائے۔
اپوزیشن کا موقف
سیٹیزن پورٹل کی کارکردگی کے حوالے سے اپوزیشن کے خیالات جاننے کے لیے مسلم لیگ نواز کی ترجمان مریم اورنگزیب سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس پر تبصرے کے لیے وقت مانگا، تاہم اس کے بعد ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔