پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار میں ایک سال مکمل کر لیا ہے۔ عمران خان کی قیادت میں اگست 2018 میں حکومت بنانے والی تحریک انصاف نے گزشتہ ایک سال میں ملک میں کافی تبدیلیاں کی ہیں اور اسکی وجہ سے اس کو بہت چیلینجز کا سامنا بھی رہا ہے۔
لیکن اس حکومت کا سب سے بڑا چیلنج معیشت کو سنبھالنا تھا جس کی وجہ سے نہ صرف اس کو خود بہت مشکلات سے گزرنا پڑا بلکہ اس کے فیصلوں اور ان فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے عوام کے لیے بھی بے پناہ معاشی مسائل پیدا ہوئے۔
ایک سال کے دوران حکومت کی معاشی پالیسیوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے معاشی امور کی ماہر ڈاکٹر عائشہ شوکت نے ’اردونیوز‘ کو بتایا کہ معاشی مسائل کی سب سے بڑی وجہ عمران خان حکومت کی طرف سے بروقت فیصلے نہ کرنا اور اہم امور پر تیاری نہ ہونا ہے۔
’پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس شروع کے دو تین سال حکومت چلانے کے لیے باقاعدہ طور پر کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ انہوں نے (ایک سال کے مختصر عرصے میں) اپنی پالیسیوں میں بھی کئی رد و بدل کیے۔‘
ڈاکٹرعائشہ کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لیے ہوم ورک کر لیا ہوتا تو ان کا گزشتہ ایک سال آسانی سے گزرتا اورعوام کو بھی ابتدا میں ہی ان کی کامیابی کا یقین ہو جاتا۔
’جب آپ حکومت چلا رہے ہوتے ہیں تو آپکے پاس کوئی پلان اے، بی یا سی ہونا چاہیے۔‘
ڈاکٹرعائشہ کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت نے ملک کے متوسط طبقے کے لیے بھی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جس سے ان کو فوری ریلیف ملے۔
’ایسے حالات میں ملک کا متوسط طبقے کا معاشی طور پر پنپ پانا مشکل ہے۔‘
تاہم سابق وفاقی سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود، جو مسلم لیگ نواز کے دور میں ملکی معاشی پالیسیوں کی نگرانی کرتے رہے ہیں، کہتے ہیں کہ جن حالات میں عمران خان کی جماعت کو حکومت ملی ان میں ان کی معاشی کارکردگی ذیادہ بری نہیں۔
’پی ٹی آئی کو مشکل حالات میں حکومت ملی تھی۔ اس وقت معیشت زبوں حالی کا شکار تھی۔ پھر ان میں تذبذب تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جائیں یا نہ جائیں۔‘
گزشتہ ایک سال میں بہت زیادہ قرضوں کے حصول کے بارے میں ڈاکٹر وقار مسعود کا کہنا ہے کہ قرضوں کی رقم اس لیے بھی بڑھی ہے کیونکہ روپے کی قدر کم ہوئی ہے۔
’30 جون 2018 تک ملک پر تقریبا 2 ٹرلین روپے تک کے قرضے تھے جو رواں سال 30 جون تک بڑھ کر 31 ٹرلین سے بھی اوپر چلے گئے ہیں۔‘
’سابقہ (نواز شریف) حکومت نے 2013-2016 کے دوران آئی ایم ایف سے پروگرام لیا تھا اور اس کو کامیابی سے مکمل بھی کیا تھا۔ لیکن آخری دو سالوں میں اپنی انتخابی مہم اور اس قسم کے خرچوں کی وجہ سے اس پروگرام کو ضائع کردیا گیا۔‘
ڈاکٹر وقار مسعود کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جس سے دنیا کے بہت سے ملک قرضے حاصل کرتے ہیں، لیکن ان قرضوں کا فائدہ تبھی ہوتا ہے جب ان کا درست استعمال کیا جائے۔
’پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کے قرضے کی منظوری حاصل کی ہے۔ لیکن یہ قرضہ صرف اسی وقت کارآمد ہو سکتا ہے جب ملک میں کاروباری افراد کے لیے ماحول اور حالات سازگار ہوں۔‘
لیکن کاروباری شعبے کے لوگ سازگار حالات کے بارے میں اب بھی زیادہ پر امید نہیں۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے رہنما زبیر موتی والا کہتے ہیں کہ اس کی سب سے بڑی وجہ پرانے ٹیکسوں میں اضافہ اور نئے ٹیکسوں کا نفاذ ہے۔
’سب سے بڑا مسئلہ تو 17 فیصد کا سیلز ٹیکس ہے۔ پھر بڑی مشینوں پر لگایا جانے والا 20 فیصد ٹیکس بھی بہت زیادہ ہے۔‘
موتی والا کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں میں اضافے کی وجہ سے اب فیکٹری مالکان کے پاس اتنی رقم نہیں بچتی کہ وہ اپنے کاروبارمیں مزید سرمایہ کاری کریں۔
’اپنے کاروبار کو بچانے کے لیے صنعتکاروں کو فیکٹری اسٹاف کی تعداد میں کٹوتی کرنی پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے روزگار کے ذرائع بھی کم ہو رہے ہیں۔‘
تاہم موتی والا سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے پاس معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے ابھی کافی وقت ہے۔
’ابھی اس حکومت کے پاس اقتدار کے چار سال اور ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اس عرصے میں کاروباری اور تنخواہ دار دونوں طبقات کے لیے حالات بہتر بنانے کی غرض سے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔‘