پاکستان پیپلزپارٹی کوایک بار پھر مشکل مرحلہ درپیش ہے۔ پارٹی کے حکمت عملی ساز شریک چیئر مین آصف علی زرداری دو ماہ سے نیب کی تحویل میں ہیں۔ فریال تالپورکو جیل منتقل کردیا گیا ہے۔ اب وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کی گرفتاری کے اشارے مل رہے ہیں۔ اس سے قبل سندھ اسمبلی کے اسپیکرسراج درانی اور بعض سابق صوبائی وزراء کے خلاف مبینہ کرپشن کےمقدمات عدالتوں میں ہیں یا تفتیش کے اگلے مراحل میں ہیں۔ سب کی نظریں اس پر ہیں کہ پارٹی اوراس کا گڑھ سندھ کیا سوچ رہا ہے اور کیا ردعمل دے سکتا ہے؟
یہ گرفتاریاں متوقع تھیں بلکہ کئی ماہ سے پارٹی قیادت اس کے لئے تیار تھی۔ لہٰذا ان گرفتاریوں پر سندھ کوحیرت نہیں ہوئی۔
سندھ کا عام آدمی سمجھتا ہے کہ زرداری جوڑتوڑ کے بادشاہ ہیں، وہ ان طوفانوں سے بھی نکل آئیں گے۔ یہ پہلا موقع نہیں، اس سے قبل بھی مقدمات اور گیارہ سال قید بھگتی ہے۔ بالآخر رہا ہوگئے اور پارٹی کو نہ صرف اقتدارمیں لے آئے بلکہ خود بھی جا کرایوان صدرمیں بیٹھے۔
مجموعی طورپرسندھ میں دو آراء پائی جاتی ہیں۔ پرانے خاندانوں اور زمینداروں کا پیپلزپارٹی مخالف ایسا حلقہ ضرورہے جو پیپلزپارٹی کے خلاف اقدامات کو اچھا سمجھتا ہے، خواہ وہ زرداری اورفریال تالپورکی گرفتاری کیوں نہ ہو۔ یہ لوگ کسی معجزے یا کرامت کے منتظر رہتے ہیں۔
مسلسل پروپیگنڈا نے متوسط طبقہ کے نزدیک آصف زرداری اور فریال تالپور کا اسٹیریو ٹائیپ امیج بنا دیا ہے۔ لیکن ان کی رائے بحث تک محدود ہے، عملاً وہ سیاسی قوت نہیں ہیں۔
دوسری رائے یہ ہے کہ عمران حکومت کے اپوزیشن کے خلاف اقدامات میں نیب اورعدلیہ کا ایکشن کٹھا ہو گیا۔ صرف اپوزیشن کوٹارگٹ کرنے کی وجہ سے ان کے اقدامات سیاسی ہوگئے ہیں۔ سندھ میں بھی یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا برائی صرف پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ نواز میں ہے، باقی سب ادارے اوربیوروکریٹس دودھ کے دھلے ہوئے ہیں؟ سلیکٹو احتساب سیاسی انتقام سمجھا جائے گا۔
سندھ میں اب بھی بھٹو کا نام سیاست کے سمندرمیں لہریں پیدا کرتا ہے۔ اس کا ووٹ بینک بڑھ رہا ہے لیکن خراب حکمرانی اور کرپشن پیپلزپارٹی کا دوسرا نام بھی بن رہا ہے۔
بائیں بازو کے سابق رہنما پروفیسرامداد چانڈیو کے نزدیک معاملہ زیادہ پیچیدہ ہے، اس کے ایک سے زیادہ رنگ، مفادات اوراسباب ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ سندھ میں یہ موجود ہے کہ پیپلزپارٹی حکومت کچھ ڈلیورنہیں کر پائی۔ عوام نہ بلاول کی ترجیح ہیں اورنہ باقی پارٹی کارندوں کی۔ معاملہ مزید الجھ جاتا ہے جب پارٹی کے اندرتنظیم اوراحتساب خال خال ہو۔ بلاول سیاسی طور پر دعوے اور نعرے تو دیتے ہیں لیکن لوگوں کو کیا چاہئے اورکن حالات میں لوگ ہیں اس طرف ان کی توجہ کم ہے۔
یہ امرمسملہ کہ پیپلزپارٹی نے اٹھارویں ترمیم اورسندھ کے حقوق کے بیانیے کے ذریعے اس حساس صوبے کے اہل دانش و فکر کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا ہے۔ اس بات پر پارٹی کے اندرخواہ باہر کے لوگ متفق ہیں کہ بلاول چاہے کچھ بھی کہیں لیکن اصل فیصلہ ساز آصف علی زرداری ہیں۔
تجزیہ کارجامی چانڈیو کہتے ہیں کہ آصف زرادری کی گرفتاری سندھ کو نہ اچھی لگی نہ بری، بلاول کا معاملہ ہوتا تو اور بات تھی۔ آصف زرداری ہوں یا فریال، سندھ ان کے ساتھ جذباتی لگاو محسوس نہیں کرتا۔ عمران خان حکومت کا اپوزیشن کی طرف مجموعی رویہ خراب لگا، اوراس کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
جیئے سندھ محاذ کے رہنما خالق جونیجو سمجھتے ہیں کہ جان بوجھ کر بلاول کا رویہ ریڈیکل رکھا ہے تاکہ بات چیت ہو سکے اور سودے بازی کی جاسکے۔
زرداری کی گرفتاری پرپیپلزپارٹی نے صوبے کے مختلف شہروں میں مظاہرے کئے، لیکن یہ علامتی احتجاج تھا۔ قیادت کا زیادہ تر زور بیانات پر رہا وہ پارٹی کو کسی بڑے احتجاج کی طرف نہیں لے گئی۔
یہ خیال درست نہیں تھا کہ زرداری کی گرفتاری سے سندھ میں آگ بھڑک اٹھے گی، ماضی میں بھی سندھ نے فوری ردعمل نہیں دیا۔اس کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ اس اقدام کو سندھ نے جائز قرار دے دیا ہے۔ سندھ اپنے اندراس غصےکو پال کے رکھے گا، اور مناسب موقع پراظہار کرے گا۔
تھوڑا بہت احتجاج کرنا ضروری ہوتاہے۔ اتنے تھوڑے بہت احتجاج کی کسی بھی حکمران کو پروا بھی نہیں ہوتی، یہ تو پھرعمران خان کی حکومت ہے۔
بھرپوراحتجاج یا تحریک نہ چلانےکی حکمت عملی کے پیچھے تین بڑی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ پارٹی سمجھتی ہے کہ سب ریاستی ادارے عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دوئم : پارٹی قیادت ایم آرڈی تحریک سے سبق لیتے ہوئے سندھ کو اکیلے احتجاج میں لے جانا نہیں چاہتی۔ تبدیلی کا مرکز پنجاب میں ہے۔
تیسری وجہ سندھ میں پارٹی کی حکومت ہے۔ پارٹی نہیں چاہے گی کہ اپنی ہی حکومت کو غیر مستحکم کرے۔ یا وفاق کو راست قدم کا کوئی موقع دے۔ بلکہ یہ کوشش ہوگی کہ اس حکومت کو بچائے۔ سندھ کی وجہ سے پارٹی کی سیاست میں اہمیت اورحساسیت ہے۔ وہ اپنی اس طاقت کو سنبھال کے رکھنا اور سنبھال کے استعمال کرنا چاہتی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے خلاف کارروائی بحران کو گہرا کرسکتی ہے اگرحکمران جماعت تحریک انصاف سندھ میں اپنی مرضی مسلط کرنا چاہے گی۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ وزیراعظم اتنے بڑے مالی بحران اورسیاسی بحران میں مبتلا ہونے کے بعد ایک اور بحران کو پیدا کریں گے۔ ایسا کرنا بڑی غلطی ہوگی۔ اس سے صوبے اور وفاق کے درمیان جھگڑا بڑھ جائے گا۔ اور سندھ کے لوگ مکمل طورپیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑے ہوجائیں گے۔
پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ اس کو آصف علی زرداری یا فریال کے حوالے سے کوئی فوری رلیف نہیں مل سکتا۔ لہٰذا اس کے لئے سندھ حکومت بچانا فی الحال اہم ہو گیا ہے۔
پارٹی قیادت یہ یقین دہانی کرانے میں مصروف ہے کہعمران خان اوراسٹیبلشمنٹ کی مخالفت دو الگ بیانیے ہیں۔ پارٹی اسٹبلشمنٹ کی مخالفت نہیں کررہی۔
پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ وہ سیاسی تنہائی کا شکار نہ ہو، دوسرے صوبے بھی اٹھیں۔ لہٰذا وہ دوسری سیاسی جماعتوں سے خود کو جوڑے رکھنا چاہتی ہے۔ اس کا زور ہے کہ اسی کے ذریعے حکمرانوں کی پالیسی میں شفٹ لے آئے۔
ریسرچراسلم خواجہ کہتے ہیں کہ احتجاج نہیں ہوگا لیکن غصہ بڑھے گا۔ وفاق اور صوبے درمیان فاصلے اور نفرتیں بڑھیں گی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کرپٹ ہیں یا کچھ بھی ایک سسٹم کے تحت منتخب ہو کرآئے ہیں۔
پارٹی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کی پالیسی سیاسی رہے گی یعنی ایک قدم آگے بڑھے گی، دباو کی صورت میں ایک قدم پیچھے ہٹ جائے گی، اور وقت آنے پر کیموفلاج میں بھی چلی جائے گی۔ یہ دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ پیپلزپارٹی جلد بازی کے بجائے لمبی اورمقتدرہ حلقوں کوتھکانے کی حکمت عملی پرعمل پیرا ہے۔