قرة العین حیدرکے والد، سید سجاد حیدر یلدرم معروف ادیب تھے۔ والدہ ،نذر سجاد حیدربھی فکشن نگار تھیں۔ اردگرد کا ماحول پڑھنے لکھنے کے واسطے نہایت سازگار تھا۔ بچپن میں شوقِ مطالعہ غیر معمولی بات نہیں لیکن اس عمرمیں لکھنا اور اس کا بچوں کے کسی موقرجریدے میں شائع ہونا اہم بات ہے۔
دارالاشاعت پنجاب، لاہور سے بچوں کے لیے ’ پھول‘ کے نام سے رسالہ نکالتا تھا جو برصغیر کے نونہالوں میں مقبول تھا۔ قرة العین حیدر نے اس میں کہانیاں اور مضامین لکھے۔ ترجمہ بھی کیا۔ ان کے بقول:جیسے بطخ پانی میں تیرنا شروع کردیتی ہے ایسے ہی میں نے لکھنا شروع کردیا۔
بچپن میں وہ لکھنے کے معاملے میں ہی تیز نہ تھیں بولنے بھی تیز تھیں، اس لیے گھر میں انھیں پیار سے طوطا کہا جانے لگا۔ بڑے ہونے پر ان کا عرفی نام عینی قرار پایا۔
افسانہ نویسی کا آغاز کالج کے زمانے سے ہوا۔ سنہ1943 میں انھوں نے اپنا پہلا افسانہ ’ایک شام‘ لکھا۔ چچا مشتاق احمد زاہدی کو سنایا تو انھوں نے کہا کہ اپنے نام سے شائع کراﺅ گی تو کوئی نہیں مانے گا ،اس پر پھر مصنفہ نے اسے لالہ رخ کے فرضی نام سے ’ادیب‘ میں چھپوایا۔ دوسرا افسانہ ’یہ باتیں‘ اصل نام سے ’ہمایوں‘ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ’ادب لطیف ‘ اور ’ساقی‘ میں افسانے چھپے۔ کوئی افسانہ کسی رسالے نے رد نہ کیا۔ ان کے بقول ’ایک بھی افسانہ کہیں سے واپس نہ آیا جو ذرا سی حوصلہ شکنی ہوتی۔‘
اس زمانے میں ادبی رسالوں کا معیار بہت بلند تھا، ان میں کسی تخلیق کا شائع ہونا بڑے اکرام کی بات ہوتی۔
تقسیم کے سال تک اتنے افسانے لکھ چکی تھیں کہ ایک مجموعے کا ڈول ڈالا جاسکے۔ سنہ 47 میں افسانوں کی پہلی کتاب ’ستاروں سے آگے‘ منصہ شہود پر آئی جس کی چار سو روپے رائلٹی ملی۔ اس زمانے میں یہ اچھی خاصی رقم تھی۔ سنہ 47 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا۔ دسمبر 47 میں ہجرت کرکے پاکستان آگئیں۔ اسی سال پہلا ناول لکھنا شروع کیا۔ پاکستان آمد کے بعد ممتاز افسانہ نگار غلام عباس سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے پوچھا: کوئی نئی چیز لکھی ہے؟
جواب دیا: ایک ناول لکھ رہی ہوں ’میرے بھی صنم خانے‘
غلام عباس نے کہا کہ مکمل ہوجائے تو انھیں پڑھنے کو دیں، وہ اشاعت کے لیے کسی ناشر سے بات کریں گے۔ ناول پورا ہونے پر غلام عباس تک پہنچ گیا۔ انھوں نے دفتر سے دو دن کی چھٹی لے کر اسے پڑھا اورمسودہ مکتبہ جدید لاہورکے سپرد کردیا۔ اپریل 1949میں ناول شائع ہوگیا۔ ناول کا عنوان علامہ اقبال کے اس شعر سے ماخوذ ہے:
تیرے بھی صنم خانے، میرے بھی صنم خانے
دونوں کے صنم خاکی، دونوں کے صنم فانی
نئے وطن میں غمِ روزگارکے ساتھ لکھنے کا سلسلہ برابر جاری رہا۔
سنہ 1952میں دوسرا ناول ’سفینہِ غمِ دل‘ شائع ہوا ۔ اس ناول کا نام فیص احمد فیض کی مشہور نظم ’صبحِ آزادی‘ کے اس مصرع سے نکالا گیا:
کہیں تو جاکے رکے گا سفینہِ غمِ دل
٭ اک آگ کا دریا ہے
قرة العین حیدر کے پہلے دو ناولوں کی ادبی اہمیت اپنی جگہ لیکن وہ ناول جس نے انھیں اردو ادب کی ممتاز ہستی بنایا وہ ’آگ کا دریا‘ ہے۔ دسمبر 1959 میں شائع ہونے والے اس ناول سے مصنفہ نہیں اردو ادب کا قد بھی بڑھا۔ صدیوں کی تاریخ ناول میں سموئی اور اس کی مدد سے تقسیم سے ذہنوں میں ابھرنے والے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی۔ اس ناول کا انھوں نے انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔ ناول کا عنوان جگر مراد آبادی کے اس شعر سے مستعار ہے:
یہ عشق نہیں آساں، اتناہی سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
عبداللہ حسین پر سرقے کا الزام
سنہ 1963میں عبداللہ حسین کا ناول ’اداس نسلیں‘ شائع ہوا تو اسے خاصا سراہا گیا۔ عام قاری کے ساتھ ساتھ اس کی تحسین ادب کے شناوروں نے بھی کی۔ قرة العین حیدر نے اپنی خود نوشت ’کارِ جہاں دراز ہے‘ میں عبدااللہ حسین پر سرقے کا الزام عائد کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں:
’اداس نسلیں کے متعدد ابواب میں، میرے بھی صنم خانے، سفینہِ غمِ دل، آگ کا دریا، اور شیشے کے گھر کے چند افسانوں کے سٹائل کا گہرا چربہ اتارا گیا ہے۔ خفیف سے ردوبدل کے ساتھ پورے پورے جملے اور پیراگراف تک وہی ہیں لیکن آج تک سوائے پاکستانی طنز نگار محمد خالد اختر کے کسی ایک پاکستانی یا ہندوستانی نقاد کی نظر اس طرف نہیں گئی۔ نہ کسی نے اشارةً بھی اس کا ذکر کیا۔ کیا یہ میل شاونزم نہیں ہے؟‘
آگ کا دریااور افواہ ساز فیکٹریاں
آگ کا دریا کی اشاعت کے بعد مصنفہ کی ذات پر کیچڑ اچھالا گیا، جس میں سراج رضوی نام کے ایک صاحب پیش پیش تھے، انھوں نے 20اپریل 1960 کو جنگ اور مارننگ نیوز میں مضمون لکھا جس میں انھیں پاکستان اور اسلام دشمن قرار دے کر ناول پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس مذموم مہم کی گرد تھوڑے عرصے بعد بیٹھ گئی۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ ناول نگار کی طرف سے قانونی نوٹس ملنے پر سراج رضوی نے معافی مانگ لی۔
مزید پڑھیں
-
’ٹٹ پینے منور ظریف نے بڑا ای ہسایا‘Node ID: 417401
-
نصرت صرف ایک ہی تھاNode ID: 429406