’گاتے سنا تو بس سنتے ہی رہ گئے‘، نصرت صرف ایک ہی تھا
’گاتے سنا تو بس سنتے ہی رہ گئے‘، نصرت صرف ایک ہی تھا
جمعہ 16 اگست 2019 10:23
محمود الحسن -لاہور
استاد فتح علی خان کوفنِ موسیقی میں بیٹے کے چمکنے دمکنے کا امکان کم نظر آتا تھا، اس لیے وہ اسے پڑھا لکھا کر ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ بیٹے کا جی مگر موسیقی میں ہی لگتا، اس لیے وہ مرحلہ بھی آن پہنچا جب استاد نے ہار مان لی اور بیٹے کو درسِ موسیقی گھر سے ملنے لگا۔
استاد فتح علی خان کے ہاں چار بیٹیوں کے بعد 13اکتوبر1948 کو نورِ نظر پیدا ہوا تو اس کا نام پرویز رکھا گیا جو بگڑ کر ’پیجی‘ کی صورت اختیار کرگیا۔ بچپن میں ایک بزرگ نے نام بدل کر نصرت رکھ دیا جو والد کے نام کے ساتھ نصرت فتح علی خان بنا اور جس کی شہرت ملکوں ملکوں ہوئی۔
نصرت فتح علی خان کے لڑکپن کی بات ہے کہ کلکتہ سے مشہور گائیک پنڈت دینا ناتھ فیصل آباد آئے اور ان کے گھر قیام کیا۔ استاد فتح علی خان سے انھوں نے شکوہ کیا کہ یہاں گانا انھوں نے خاک تھا کہ طبلے پر سنگت کے لیے کوئی ڈھنگ کا بندہ ہی نہ ملا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ گانے والے بنیں، طبلہ نصرت بجائے گا۔
دینا ناتھ یہ بات سن کر ہنسے اور کہا: ارے یہ موٹو نصرت؟
بااعتماد باپ نے جواب دیا: ہاں، ہے یہ موٹو لیکن ذہن بہت باریک ہے۔
آزمائش سے گزرنے سے پہلے باپ نے بیٹے کو چند نکتے کی باتیں ازبر کرا دیں۔
نصرت کی انگلیوں نے طبلہ کو چھوا تواستاد دینا ناتھ اس نوعمر کی مہارت پر حیران رہ گئے۔ اٹھ کر اسے گلے لگایا اور کہا: فتح علی خان، یہ تیرا چھوٹا بیٹا بڑا گنی ہے۔
یہ جملہ باپ بیٹے دونوں کے لیے فخرو انبساط کا باعث بنا۔
نصرت فتح علی خان نے ابھی باپ سے نہ جانے کتنے ہی اسرارو رموز سیکھنے تھے کہ سنہ 1964میں ان کا انتقال ہوگیا۔ خاندان پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ نصرت باپ کے سائے سے محروم ہوا۔ استاد مبارک علی خان کی جوڑی ٹوٹ گئی۔ برسوں سے وہ بھائی کے ساتھ مل کر، خاندان میں صدیوں سے قائم قوالی کی روایت آگے بڑھا رہے تھے۔
مایوسی کے ان ایام میں نصرت کی بہن انھیں نجومی کے پاس لے گئی، جس نے ہاتھ دیکھ کر کہا: لڑکا بہت بڑا گویا بنے گا۔ دنیا بھر میں اس کی شہرت ہوگی۔
بہن بھائی نے بے یقینی سے یہ بات سنی اور گھرلوٹ آئے۔
باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو حاسدین نے سر اٹھایا، جن کا خیال تھا کہ قوالی کے لیے نصرت کی باریک آواز موزوں نہیں، ایسوں کی بھی کمی نہ تھی جو اس کے موٹاپے کو فنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ جانتے۔ ان حالات میں تایا نے یتیم بھتیجے کی دستگیری کی ۔اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ باپ کے چہلم پر نصرت فتح علی خان نے استاد مبارک علی خان کے ساتھ قوالی گا کر پہلی پبلک پرفارمنس دی ۔ اس کے بعد چل سو چل۔۔
سنہ 1965میں ریڈیو پر رسائی ہوگئی۔ مزاروں، درگاہوں پر فن کا مظاہرہ بھی جاری رہا۔ سنہ1971میں استاد مبارک علی خان کی وفات کے بعد وہ خاندان کی قوال پارٹی کا سربراہ بن گئے، جو نصرت فتح علی خان، مجاہد مبارک علی اینڈ پارٹی کے نام سے جانی جاتی۔ ریڈیو کے بعد ٹی وی پر ہونے والی محافل سماع میں بھی نصرت نے فن کا لوہا منوایا۔ اردو اور پنجابی ہر دو زبانوں میں وہ سہولت سے گاتے۔
وہ زمانہ جس میں نصرت فتح علی خان قوالی کے میدان میں قدم جما رہے تھے، اس میں اور بھی کئی قوال گارہے تھے، جن میں غلام فرید صابری نمایاں ترین تھے۔ دھیرے دھیرے نصرت فتح علی خان نے اپنی جگہ بنالی اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ قوالی کے 125 البم ریکارڈ کروانے پر ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آگیا۔
نصرت نے قوالی میں نئے تجربات کیے، روایت اور جدت کے ملاپ سے اس فن کو نئی زندگی دی، اسے روایتی حلقوں سے نکال کرمعاشرے کے دوسرے طبقات میں مقبول بنایا ،جس کی ایک مثال کرکٹروں میں قوالی کی مقبولیت بھی ہے۔
1992کے ورلڈ کپ کے دوران نصرت فتح علی خان کی قوالیوں نے مایوسی کے لمحات میں کھلاڑیوں میں کچھ کرنے کا جذبہ ابھارنے میں بڑی مدد دی، جس کا کپتان عمران خان نے برملا اعتراف بھی کیا۔
ممتاز کرکٹ کمنٹیٹر اور مبصر منیر حسین مرحوم نے اپنی کتاب ’ورلڈ کپ کا سفر‘ میں لکھا ہے کہ دورانِ ورلڈکپ نصرت فتح علی خان کی قوالی ’دم مست قلندر مست مست ‘کو پاکستان ٹیم نے حرزِ جاں بنا رکھا تھا ۔
1980 کی دہائی میں نصرت کی آواز پاکستان کے تنگنائے سے نکل کر باہر کے ملکوں میں جادو جگانے لگی۔ مغرب میں ان کی آواز کی خوشبو یوں پھیلی کہ لوگوں نے کہا کہ ایسی آواز سے ان کے کان پہلی بار آشنا ہوئے ہیں۔
اس آواز سے متاثر ہونے والوں میں ممتاز میوزک ڈائریکٹر پیٹرگیبریئل بھی تھے ، انھوں نے لندن میں ایک شو میں نصرت کو گاتے سنا تو بس سنتے ہی رہ گئے۔ کہا کہ اس آواز کی رینج اتنی زیادہ ہے کہ اندازہ کرنا مشکل ہے۔
پیٹر گیبریئل سے ملنا، نصرت کے کیرئیر کا ٹرننگ پوائنٹ بن گیا۔
گیبریئل نے نصرت کو فلم ’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ ‘ میں صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیا تو انھوں نے اپنے کام کے ساتھ وہ انصاف کیا کہ ان کی شہرت کو پر لگ گئے۔ فلم کے خاص سین کے لیے نصرت نے راگ درباری میں جو الاپ کیا وہ ڈائریکٹر کی ڈیمانڈ کے عین مطابق تھا وگرنہ اس سے پہلے کتنے ہی گلوکار، اس کے مطلوبہ معیارتک پہنچنے میں ناکام رہے تھے۔
اس بے نظیر کامیابی کے بعد نصرت نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کیا مغرب اور کیا مشرق ان کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ 1990 کی دہائی میں بالی وڈ میں ان کے نام کا ڈنکا بجا۔ ممتاز شاعر جاوید اختر کے ساتھ مل کر انھوں نے ’سنگم ‘ کے نام سے البم ریلیز کیا جس کے گانے ’آفریں آفریں‘کو بڑی شہرت ملی ۔ان کے قدر دانوں میں میں اے آر رحمٰن بھی شامل ہیں جنھوں نے اپنے گانے ’ترے بنا‘ کے ذریعے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔
بالی وڈ اور ہالی وڈ کی چند ہی فلموں میں انھوں نے فن کا اظہارکیا۔ ان کا کام کمیت میں کم سہی لیکن اہمیت میں نہیں،اس لیے وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
نصرت فتح علی خان سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ ایک زمانہ ان کی آواز کا دیوانہ ہے ،خود انھیں کس کی آواز مسحور کرتی ہے تو انھوں نے جواب دیا: ملکہ ترنم نور جہاں
نور جہاں کے ساتھ انھوں نے دو گیت بھی گائے جن کے لیے میڈم نے بالانرخوں کا تقاضا کیا اور فی گیت دو لاکھ روپے وصول کئے۔ نصرت فتح علی خان نے انھیں فیصل آباد اپنی بیٹی کی پہلی سالگرہ پر مدعو کیا تو وہ ان کی خوشی میں شریک ہوئیں۔
16اگست 1997 کو لندن میں نصرت فتح علی خان کا انتقال ہوا تو اس وقت ان کی شہرت کا سورج نصف النہار پر تھا، نہ جانے کتنی ہی اور منزلیں انھوں نے سر کرنی تھیں لیکن: موت سے کس کو رستگاری ہے
جانشین کے سلسلے میں نصرت فتح علی خان خوش قسمت ثابت ہوئے، ان کے بھتیجے راحت فتح علی خان نے ان کی روایت کو نہایت عمدگی سے توسیع بھی دی اورگلوکاری میں اپنا انفرادی رنگ بھی جمایا۔