جب انسانوں کو غلام بنانے کے لیے جال بچھائے جاتے تھے
جب انسانوں کو غلام بنانے کے لیے جال بچھائے جاتے تھے
جمعہ 23 اگست 2019 4:38
جاوید مصباح -اردو نیوز، اسلام آباد
19ویں صدی میں ایک ایرانی غلام کا خاکہ (تصویر بشکریہ وکی پیڈیا)
کسی حیوان کے گلے میں پڑی زنجیر کے دوسرے سرے پر کبھی جانور نہیں ہوتا۔ یہ شرف اشرف المخلوقات کو ہی حاصل ہے کہ اس کے گلے اور پیروں میں پڑی مرئی و غیر مرئی زنجیریں ہمیشہ ہم نفسوں کے ہاتھ میں رہیں۔
پہلے دور غلامی کے دو کرداروں پر نظر ڈالتے ہیں جن میں سے نسبتاً کمزور نے آزادی کے لیے خود کو بکس میں بند کیا اور دوسرے نے بغاوت کا مقفل پنڈورا بکس کھولا۔
سیاہ فام ہنری بکس غلامی میں پیدا ہوا، ماں باپ بچپن میں فروخت ہو چکے تھے، 1849 کا امریکہ ماضی کے مقابلے میں غلاموں کے لیے کچھ ’بہتر‘ ہو چکا تھا کچھ ریاستوں میں آزادی تھی، تاہم ورجینیا میں ایسا نہیں تھا۔
مالک نے اس کی ایک لونڈی سے شادی بھی کر دی۔ وہ ہر وقت مالک کو درخواست کرتا کہ ان کو کبھی الگ الگ فروخت نہ کرے، جس پر مالک ہمیشہ ’او کے‘ کہتا اس کے دو بچے بھی پیدا ہوئے لیکن پھر اچانک مالک نے اس کے بیوی بچے کسی کے ہاتھ بیچ دیے۔
ہنری کو بہت دکھ ہوا، بغاوت تو بے چارہ کیا کرتا اس نے پنسلوانیا بھاگنے کا پروگرام بنایا جو آزاد ریاست تھی۔
ایک ہمدرد گورے کی مدد سے اس نے خود کو تین فٹ لمبے اور دو فٹ چوڑے لکڑی کے صندوق میں بند کیا اور اس پر پنسلوانیا انسانی حقوق کے ادارے کا پتہ لکھا اس کے دوستوں نے ’خشک اشیا‘ لکھ کر پارسل کر دیا۔
اس وقت سیاہ فام گاڑیوں میں سفر نہیں کر سکتے تھے۔ صندوق کے اندر صرف ایک چھوٹا سا سوراخ تھا، اس دوران ویگن، ٹرک، کشتی اور ٹرین پر بکس لادا جاتا رہا، اگرچہ اس کے اوپر ’ہنیڈل ود کیئر‘ اور ’دِس سائڈ اپ‘ درج تھا لیکن لادنے والے خاطر میں نہ لاتے اور ہنری نے گھنٹوں ایسا سفر کیا جس میں کبھی سر نیچے ہوتا اور کبھی پیٹ، 27 گھنٹے کے طویل سفر کے بعد وہ پنسلوانیا پہنچا جسے اسی ادارے کے اہلکاروں نے کھولا اور ہنری نے پہلی بار آزاد فضا میں سانس لی۔ تب لفظ ’بکس‘ ہنری کے نام کا حصہ بنا۔
اب آئیے دوسرے زورآور غلام کی طرف جس نے سلطنت روم کا روم روم ادھیڑ ڈالا۔
71 قبل مسیح میں سپارٹیکس نے غلامی میں ہوش سنبھالا، اس نے کانوں میں کام کیا اوراصطبلوں میں بھی، اس وقت امرا کی تفریح غلاموں کی لڑائی ہوتی تھی جن میں سے بالآخر ایک نے مر جانا ہوتا تھا۔
غلاموں پر بھوکے شیر بھی چھوڑے جاتے جب تک ان کی جدوجہد زندگی جاری رہتی کھیل بھی جاری رہتا۔ چونکہ سپارٹیکس مضبوط جسم کا مالک تھا اسے بھی تربیت دی گئی۔ اس نے اپنے کئی ساتھیوں، جنہوں نے اس کے ساتھ تربیت حاصل کی تھی، کومیدان میں قتل کیا۔ جس پر تماشائی تالیاں بجاتے۔
ایک لڑائی سے قبل اسے خیال آیا کہ اگر ہم لوگوں کو خوش کرنے کے لیے لڑ سکتے ہیں تو آزادی کے لیے کیوں نہیں، وہ لڑائی اس نے بوجھل دل کے ساتھ جیتی کیونکہ اس کا ایک ساتھی کم ہو گیا۔
یہی بات اس نے ساتھیوں کو سمجھائی کہ ’کب تک ہمیں لڑنے کے لیے نکالا جاتا رہے گا ہم لڑ کر نکل کیوں نہیں سکتے۔‘
انہوں نے مل کر عملے پر حملہ کیا اور فرار ہو گئے، باہر کے کسان اور دیگر غریب لوگ بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ یوں بادشاہوں کے خلاف تحریک شروع ہو گئی جس نے روم کو ہلا کر رکھ دیا۔
کئی ماہ تک انہوں نے ناک میں دم کیے رکھا، پھر دھوکے سے سپارٹیکس کو گھیر کر شاہی فوج نے قتل کر دیا اور چھ ہزار ساتھیوں کو سڑک کنارے ہاتھوں اور پیروں میں کیلیں ٹھونک کر مصلوب کیا گیا اس وقت سب پکار رہے تھے’ہم سپارٹیکس ہیں‘۔
ان واقعات سے ثابت ہے کہ انسانی فطری طور پر آزاد ہے اور اس کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
یہ سوالات کہ غلامی کب کیسے کہاں اور کیوں شروع ہوئی اس صورت میں زیادہ اہم ہو سکتے تھے اگر غلامی ختم ہو گئی ہوتی تو، آج بھی یہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے، پھر بھی نظر ڈالتے ہیں۔
غلامی کا آغاز
انسانی زندگی کے ساتھ ہی اس کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، روم کے علاوہ یونان کے ادوارغلامی بہت مشہور ہیں تاہم کرہ ارض کا شاید ہی کوئی ایسا حصہ ہو جہاں غلامی نہ رہی ہو۔
ماضی بعید سے صرف نظر کرتے ہوئے گزرے دو ڈھائی سو سال پر نگاہ ڈالی جائے تو گیمبیا، نائجیریا اور افریقہ میں جگہ جگہ ایسے جال نظر آتے ہیں جو سیاہ فاموں کو پکڑنے کے لیے بچھائے جاتے، زنجیروں میں جکڑ کر امریکہ، یورپ لے جائے جاتے، جہاں خریدوفروخت ہوتی، ان کو صرف اتنا کھانا ملتا کہ جس سے وہ کام کرنے کے قابل رہتے۔
اٹھارویں صدی میں فرانس میں ایسا قانون باقاعدہ پاس ہوا جس کے مطابق کسی آزاد انسان سے لڑائی کرنے پر غلام کو سزائے موت دی جاتی، بھاگ جانے والے غلاموں کو پکڑ کر ان کے کان کاٹ دیے جاتے اور جسم داغا جاتا، تین بار مسلسل بھاگنے والے کے لیے موت کی سزا رکھی گئی۔
غلامی پر پابندی
اگرچہ دور غلامی میں بھی حقوق کی آواز اٹھتی جو منمناہٹ سے زیادہ نہ ابھرتی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو احساس ہوتا گیا اور مختلف ممالک نے بتدریج غلامی پر پابندی لگائی۔ ایک رپورٹ کے مطابق یورپی اقوام نے دو کروڑ دس لاکھ سیاہ فاموں کی تجارت کی جس میں برطانیہ کا حصہ تیس لاکھ ہے۔
1807 میں برطانیہ نے غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا اور 2007 میں اس کی دو سو ویں سالگرہ کے موقع پر وزیراعظم ٹونی بلیئر نے کہا تھا ’انسانوں کو غلام بنانا قابل قبول نہیں ہوسکتا۔‘
برطانیہ‘ فرانس‘ پرتگال اور دوسری یورپی طاقتوں نے 19ویں صدی کے وسط تک اپنے ہاں تو غلامی ختم کی تاہم نوآبادیاتی دور میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہا۔
امریکہ نے 1862، ہالینڈ نے 1863 میں غلامی کو ختم کیا۔ سپین نے 1866 میں غلاموں کی تجارت پر پابندی لگائی۔ پورٹوریکو میں 1873 میں غلامی کا خاتمہ ہوا۔ کیوبا میں غلامی کے خاتمے کا سال 1886 ہے۔ اسی سال برازیل میں غلامی اختتام کو پہنچی۔ مڈغاسکر میں یہ سلسلہ 1896میں انجام کو پہنچا۔ فرانس نے مئی 2001 میں ایک قانون بنایا جس میں غلامی کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا گیا۔
اس کے بعد اقوام متحدہ نے اسے انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا اور 23 اگست کو غلاموں کی تجارت کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا جو آج ہے۔
پاکستان میں بھی 1973 کے آئین کی شق 11 کے تحت غلامی کے تصور کو ختم کر دیا گیا اور اسے غیر انسانی اور غیر قانونی قرار دیا گیا۔
جدید دور میں غلامی
اگرچہ دنیا سے غلامی کا خاتمہ ہو چکا لیکن حقیقی معنوں میں نہیں۔ آج غلاموں کو جال بچھا کر نہیں پکڑاجاتا لیکن جال بہرحال موجود ہے۔
اب افراد نہیں قوموں کو غلام بنانے کا چلن ہے سرمایہ دارانہ نظام اس کی سب سے بڑی وجہ ہے، چھوٹے ملکوں کے وسائل پر قبضہ، قرضے، سود کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل رہا ہے۔
جولائی 2017 میں لندن سے یہ خبر آئی کہ وہاں غلامی اب بھی ہو رہی ہے
سکاٹ لینڈ یارڈ کے انسداد غلامی یونٹ کے سربراہ چیف انسپکٹر فل بریور نے کہا تھا کہ ’لندن میں ہوٹلوں اور زیرتعمیر عمارتوں میں لوگوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے، معاوضہ نہیں دیا جاتا، پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں دیا جاتا، جبری مشقت کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا۔‘
محنت کی عالمی تنظیم آئی ایل او کے تعاون سے واک فری فاؤنڈیشن کی جانب سے پچھلے سال جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں چار کروڑ سے زیادہ افراد غلامی کی زندگی بسر کر ر ہے ہیں۔ 58 فیصد تعداد چین، پاکستان، بنگلہ دیش اور ازبکستان میں آباد ہے۔ امریکہ بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں غلامی کی جدید شکل میں اضافہ ہوا ہے۔
اسی طرح چھوٹی سطح پر بھٹے اور بعض فیکٹریاں بیگار کیمپس کے طور پر کام کر رہے ہیں جہاں مزدوروں کو اس طرح سے جکڑا جاتا ہے کہ وہ واجب الادا پیسوں کی وصولی کے لالچ میں کام کرتے جاتے ہیں اور مزید پھنستے چلے جاتے ہیں۔
حبیب جالب نے یقیناً ٹھیک ہی کہا تھا
تُو کہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے