متعارف کرائے گئے نئے ڈومیسٹک ڈھانچے میں 16 ریجنز کو اب 6 ایسوسی ایشنز میں ضم کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے بالآخر 11 ماہ بعد پاکستان میں کرکٹ کے ڈھانچے کو تبدیل کر ہی دیا ہے۔
چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ احسان مانی نے ستمبر 2018 میں جب عہدہ سنبھالا تو پیٹرن انچیف وزیراعظم عمران خان نے ان کو کرکٹ بورڈ میں اصلاحات اور ڈومیسٹک ڈھانچے میں تبدیلی کا مشکل ٹاسک سونپ دیا۔
وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر ڈومیسٹک ڈھانچے میں 16 کے بجائے چھ ٹیمیں بنانے اور چیئرمین سے اختیارات چیف ایگزیکٹو کو منتقل کرنے کے لیے کرکٹ بورڈ کا نیا آئین متعارف کروایا گیا۔
نئے ڈومیسٹک ڈھانچے میں نیا کیا ہے؟
پاکستان کرکٹ بورڈ کے متعارف کرائے گئے ڈومیسٹک ڈھانچے میں 16 ریجنز کو اب چھ ایسوسی ایشنز میں ضم کر دیا گیا ہے۔ کراچی، حیدرآباد اور لاڑکانہ ریجن کو ملا کر اب سندھ ایسوی ایشن کے نام سے ایک ٹیم منتخب کی جائے گی۔ اسی طرح ڈیرہ مراد جمالی اور کوئٹہ ریجن کو بلوچستان کرکٹ ایسوی ایشن میں ضم کر دیا گیا ہے۔ نئے ڈھانچے میں آبادی کے اعتبار سے صوبہ پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ملتان اور بہاولپور ریجن ساوتھ پنجاب کرکٹ ایسوی ایشن جبکہ لاہور، فیصل آباد اور سیالکوٹ سنٹرل پنجاب کرکٹ ایسوسی ایشن میں ضم ہوں گی۔ ڈومیسٹک کرکٹ کی پانچویں ٹیم خیبر پختونخوا کی ہے جس میں پشاور، ایبٹ آباد اور فاٹا ریجن کو شامل کیا گیا ہے اور اسی طرح اسلام آباد، راولپنڈی اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر ریجن پر مشتمل ناردرن کرکٹ ایسوسی ایشن کی چھٹی ٹیم ڈومیسٹک کرکٹ میں حصہ لے گی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس نئے ڈھانچے کے مطابق تمام ڈومیسٹک فارمیٹس میں 6 ٹیمیں مدمقابل ہوں گی۔ پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ قائداعظم ٹرافی چار روزہ فرسٹ کلاس کرکٹ ٹورنامنٹ ہے۔ اس میں پہلے ریجن اور ڈیپارٹمنٹس کی کل 16 ٹیمیں حصہ شرکت کرتی تھیں۔ اب ایسوسی ایشنز کی 6 ٹیمیں حصہ لیں گی اور اسی طرح ایک روزہ کرکٹ ٹورنامنٹ اورنیشنل ٹی ٹونٹی میں بھی 6 ٹیمیں ہی حصہ لیں گی۔
ڈومیسٹک کرکٹ کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے درجے میں 6 ایسوسی ایشنز میں شامل شہروں کی ایسوسی ایشنز سکول اور کلب کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کریں گی۔ دوسرے درجے میں کلب اور سکول کرکٹ کی بہترین ٹیمیں انٹرا سٹی مقابلوں میں شرکت کریں گی۔ تیسرے درجے میں چھ ایسوسی ایشنز پی سی بی کے زیر انتظام ٹورنامنٹ، قائداعظم ٹرافی، پاکستان ون ڈے کپ، نشینل ٹی ٹونٹی اور دیگر ٹورنامنٹس میں حصہ لیں گی۔
ڈومیسٹک کرکٹ میں بین الاقوامی کرکٹ کے طرز پر گیندوں کا استعمال
پاکستان نے ڈومیسٹک کرکٹ میں اب کوکوبورا گیندوں کو استعمال کرنے کا حتمی فیصلہ بھی کر لیا ہے۔ اس سے قبل پاکستان کرکٹ بورڈ میں متعدد بار کوکوبورا گیند استعمال کرنے کی تجویز سامنے آئی تھی لیکن مالی مشکلات اور کئی دیگر عوامل کے باعث ڈومیسٹک کرکٹ میں ڈیوک گیندوں کا استعمال ہوتا رہا۔
پاکستان میں اس سے پہلے ڈومیسٹک کرکٹ میں برطانوی کمپنی کی تیار کردہ گیند ’ڈیوک‘ استعمال کی جاتی تھیں جبکہ بین القوامی ٹیسٹ میچز میں پاکستان کوکوبورا گیند کا استعمال کرتا ہے۔ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں اپنی ہوم ٹیسٹ سیریز میں ڈیوک گیندیں استعمال کرتی ہیں جبکہ انڈیا میں مقامی طور پر تیار کی گئی گیند کو ٹیسٹ میچ کے دوران استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بین الاقوامی ون ڈے کرکٹ میں کوکوبورا گیندوں کا ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب پاکستان نے بھی کھلاڑیوں کو بین الاقوامی معیار کی کرکٹ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ میں ان گیندوں کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے۔
کھلاڑیوں کے معاوضے میں اضافہ
پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس سال ڈومیسٹک سیزن پر ایک ارب سے زائد رقم خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جس میں کھلاڑیوں کے معاوضے اور ٹورنامنٹس کی انعامی رقم میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ اس سال قائداعظم ٹرافی جیتنے والی ٹیم کو ایک کروڑ جبکہ رنر اپ کو پچاس لاکھ روپے کی انعامی رقم دی جائے گی ۔ اسی طرح ون ڈے کپ اور ٹی ٹونٹی کپ کی انعامی رقم میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
ڈومیسٹک سینٹرل کنٹریکٹ یافتہ کھلاڑی سالانہ چھ لاکھ روپے تنخواہ وصول کریں گے جبکہ ٹورنامنٹس کی میچ فیس میں بھی اضافے کا اعلان کیاگیا ہے۔ قائداعظم ٹرافی کی میچ فیس 50 سے بڑھا کر 75 ہزار روپے مقرر کردی گئی ہے۔ پاکستان کپ (ایک روزہ ٹورنامنٹ) کی میچ فیس 40 ہزار روپے مقرر کردی گئی ہے جو کہ گزشتہ سال 35 ہزار تھی۔ اسی طرح قومی ٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ کی میچ فیس 40 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔
نان فرسٹ کلاس میچز کی میچ فیس آٹھ سے بڑھا کر 30 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ تین روزہ کرکٹ میں انڈر 19 کھلاڑیوں کی میچ فیس چار سے بڑھا کر 10 ہزار روپے جبکہ ایک روزہ کرکٹ میں انڈر 19 کھلاڑیوں کی میچ فیس دو سے بڑھا کر پانچ ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ڈومیسٹک سیزن کے دوران کھلاڑی تھری اور فور اسٹار ہوٹل میں رہائش اختیار کریں گے اوربین الصوبائی سفر کے لیے کھلاڑی ہوائی جہاز کا استعمال کریں گے۔
حال ہی میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے کھلاڑیوں کے سنٹرل کنٹریکٹ کے معاوضے میں بھی اضافہ کیا تھا۔
ماہرین نئے ڈھانچے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
سابق ٹیسٹ کرکٹر جاوید میاںداد نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ادارے کا ڈھانچے اپنے ملک کو دیکھ کر بنایا جاتا ہے۔ ’بیس کروڑو کے آبادی والے ملک میں آسٹریلیا کے طرز کا کرکٹ ڈھانچہ بنانا درست اقدام نہیں۔‘
جاوید میاںداد نے مزید کہا ’عبدالفیظ کاردار جو کرکٹ کا نظام لے کر آئے تھے وہ ڈیپارٹمنٹل کرکٹ تھی اور ڈیپارٹمنٹل کرکٹ میں سفارش کلچر کم سے کم ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی ادارہ بہترین کھلاڑی کو اپنی ٹیم میں منتخب کرتا ہے۔‘
جاوید میانداد نے کہا نئے ڈومیسٹک ڈھانچے سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا اور کرکٹ کی وجہ سے ایک خاندان کی کفالت ہوتی تھی اب وہ پورا خاندان متاثر ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جس ملک میں رشوت اور سفارش کا کلچر ہو وہاں بیرون ملک کے طرز کا ڈھانچہ کیسے کامیاب ہوگا؟ ’بیرون ملک کسی کو روٹی کی فکر نہیں ہوتی وہاں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بے روزگار لوگوں کی کفالت کرے. جہاں کرپشن کا نظام ہو وہاں غیر ملکی ڈھانچہ نہیں چل سکتا۔‘
جاوید میاںداد نے کہا کہ انہوں وزیراعظم عمران خان سے بھی درخواست کی تھی کہ ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کو ختم نہ کیا جائے اور ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کے ٹورنامنٹس بھی ساتھ ہی کروائے جاتے۔ جاوید میاںداد نے دعوی کیا کہ نئے نظام کے تحت صرف ٹی ٹونٹی کرکٹ میں ہی بہتری آئے گی۔
سینیئر سپورٹس جرنلسٹ عالیہ رشید نئے ڈومیسٹک ڈھانچے کو مثبت اقدام قرار دے رہی ہیں۔ عالیہ رشید کہتی ہیں ’جب بنیادیں مضبوط نہیں ہوں گی تو اس پر مضبوط عمارت نہیں کھڑی کی جاسکتی۔‘
انہوں نے کہا کہ عبدالحفیظ کاردار نے جو کرکٹ کا ڈھانچہ متعارف کروایا تھا وہ اس وقت کی ضرورت تھی۔ ملک میں کرکٹ کو فروغ دینے کے لیے ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کو متعارف کروانا پڑا، لیکن اس نظام کا نقصان یہ ہوا کہ ڈیپارٹمنٹل کرکٹ تو بہتر ہو گئی لیکن ریجن کی کرکٹ کمزور ہو گئی تھی۔
عالیہ رشید نے کہا کہ اس نظام سے بہترین کھلاڑیوں کو آگے آنے کا موقع ملے گا۔ ڈومیسٹک ڈھانچے میں صرف کھلاڑی ہی نہیں بلکہ وہ ماحول فراہم کرنا ہے جس سے بین الاقوامی کرکٹ سے کھلاڑی ہم آہنگ ہوں۔ ’ڈومیسٹک کرکٹ میں مقابلے کی فضا نہ ہونے کی وجہ سے ڈومیسٹک میں بہترین کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی جب انٹرنیشنل کرکٹ کھیلتے ہیں تو ان کی کارکردگی اس معیار کی نہیں ہوتی۔‘
ڈیپارٹمنٹ کرکٹ ختم ہونے سے بے روزگاری بڑھنے سے متعلق سوال کے جواب میں عالیہ رشید نے کہا کہ ’کوئی ادارہ کسی کو روزگار اس لیے تو نہیں دے گا کہ وہ بے روزگار ہے۔ جب آپ کے اندر اہلیت ہوتی ہے تو مواقع خود ملتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ڈومیسٹک ڈھانچے میں تبدیلی کے پیچھے پاکستان کرکٹ کو بہتر کرنے کی نیت نظر آ رہی ہے اور اس سے پاکستان میں کرکٹ کا معیار بہتر ہوگا۔