ماہرین نفسیات کے مطابق خود کشی اور قتل کا تعلق ’دماغی مسائل‘ سے ہوتا ہے، تصویر: اردو نیوز
بڑھتی ہوئی نفسیاتی الجھنوں، معاشی مشکلات، رشتوں اور تعلقات میں پیچیدگیوں اور تعلیمی مسائل کی وجہ سے پاکستان میں خود کشی کے رحجان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں ایک ہزار کے قریب افراد نے خود کشی کی کوشش کی جن میں سے 49 افراد نے اپنی جان لے لی جبکہ 922 افراد کو بچا لیا گیا۔
2018 میں کل 1718 افراد نے خودکشی کی کوشش کی تھی، جن میں سے 1581 کو بچا لیا گیا تاہم 137 افراد نے دنیا سے اپنا ناطہ توڑ لیا تھا۔
اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں گذشتہ سال کی نسبت خودکشی کے واقعات آدھے سے زیادہ ہوئے ہیں اور اگر یہی صورت حال رہی تو رواں برس خودکشی کرنے والے افراد کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں اپنی جان خود ختم کرنے کا رحجان ذاتی و معاشرتی مسائل بڑھنے کے باعث ہو رہا ہے اور ایسے افراد جو روز مرہ زندگی میں آنے والی مشکلات کا سامنا نہیں کر سکتے، وہ جینے پر مرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور خود کشی کا سہارا لیتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں خودکشی کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں جن میں پنکھے سے لٹک کر خود کو پھندہ لگا لینا، خود کو گولی مار لینا، زہر کھا لینا اور اونچی جگہ سے یا پانی میں کود جانا شامل ہے۔
ماہرنفسیات سعدیہ اشرف نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ خودکشی کے واقعات کا تازہ ڈیٹا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ زیادہ تر نوجوان اپنے حالات کی وجہ سے مایوس ہو کر اپنی جانیں خود اپنے ہاتھوں سے ختم کر رہے ہیں۔
’خودکشی کے واقعات کے مطالعے سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والے زیادہ تر نوجوان ہیں جو پڑھائی کے دباؤ ، بے روزگاری یا پھر جذباتی معاملات کی وجہ سے یعنی مرضی کی شادی نہ ہونے یا پسندیدہ شخص کا ساتھ نہ نبھانے کی وجہ سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔‘
مشکلات سے گھبرا کر اپنی جان لینے والے کم ہمت لوگوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ایسے لوگوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جو معمولی بات پر دوسروں کو قتل کر دیتے ہیں۔
’اردو نیوز‘ کو میسر سرکاری دستاویزات کے مطابق 2019 کے پہلے چھ ماہ کے دوران 9 ہزار سے زائد افراد پر قاتلانہ حملے کیے گئے جن میں سے 4005 ہلاک ہو گئے جبکہ 5060 افراد کی جان کسی طور پر بچا لی گئی۔
سعدیہ اشرف کا کہنا ہے کہ انسان چاہے خود اپنی جان لے یا طیش میں آ کر کسی دوسرے کو قتل کر ڈالے، دونوں صورتوں میں اس کا تعلق کسی نہ کسی طرح ’دماغی مسائل‘ سے ہوتا ہے۔
’اصل بات یہ ہے کہ لوگوں میں برداشت نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ احساس کمتری کو برداشت نہ کر کے اپنی جان دے دیتے ہیں اور کچھ لوگ احساس برتری کے تحت دوسرے کو مار ڈالتے ہیں۔‘
سعدیہ اشرف کا کہنا تھا کہ ایسے افراد کے ان اقدامات کا ذمہ دار ان کے گھر والے ہوتے ہیں۔
’ان افراد کے کچھ ذہنی مسائل ہوتے ہیں جن کو گھروں میں نظر انداز کیا جاتا ہے، جیسا کہ تنہائی کا شکار ہونا، جارحانہ ہونا یا پھر مقابلہ بازی میں جذباتی ہو جانا۔ گھر والوں کو چاہیے کہ ایسے افراد کو بروقت نفسیاتی علاج فراہم کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ زنا، اجتماعی زیادتی اور دوسروں کو نقصان پہنچانے والے ایسے ہی کئی جرائم کا تعلق نفسیاتی طور پر ناہموار شخصیت سے ہوتا ہے۔
’اردونیوز‘ کو دستیاب دستاویزات کے مطابق جنسی زیادتی اور اجتماعی زیادتی کے واقعات میں بھی بظاہر کسی واضح کمی کے امکانات نہیں ہیں۔
2019 کے پہلے چھ ماہ کے دوران پاکستان میں اجتماعی زیادتی کے 109 اور جنسی زیادتی کے 2162 واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ گذشتہ سال پولیس کے پاس جنسی زیادتی کے 6064 اور اجتماعی زیادتی کے 458 واقعات کی رپورٹ درج کرائی گئی تھی۔
قومی اتھارٹی برائے انسداد دہشت گردی (نیکٹا) اور پولیس بیورو کے سابق سربراہ احسان غنی کا کہنا ہے کہ سرکاری دستاویزات میں دیے جانے والے اعداد و شمار اصل واقعات سے کم ہوتے ہیں کیونکہ بہت سے واقعات یا تو پولیس اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے چھپا لیتی ہے اور یا پھر متاثرین ان کا اندراج ہی نہیں کرواتے۔
اس سال جون تک درج کروائے گئے اعداد وشمار کے مطابق اغوا کے 9329 واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں سے 53 وارداتیں اغوا برائے تاوان کی تھیں جبکہ 2018 میں ان واقعات کی تعداد 20 ہزار سے زائد تھی۔
احسان غنی کہتے ہیں کہ پاکستان میں جرائم میں کمی نہ آنے کی بڑی وجہ حکومتوں کا اصلاحات کرنے میں سنجیدہ نہ ہونا ہے۔
’یہاں حکومتیں پولیس اصلاحات کی بات تو کرتی ہیں لیکن عدالتی اصلاحات نہیں کرتیں، اور پولیس اصلاحات میں بھی کچھ نہیں ہوتا۔‘
’یہاں تک کہ دہشت گردی کے خلاف لائے جانے والے ’نیشنل ایکشن پلان‘ میں بھی ’کریمینل جسٹس سسٹم‘ کا نقطہ سب سے آخر میں تھا اور پھانسیوں کا پہلا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اسلحے کی روک تھام کے ذریعے قتل اور خودکشی کے واقعات روکے جا سکتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں ناجائز اسلحے کی ضبطگی کے لیے چلنے والی اکثر مہمات بھی ناکام رہی ہیں۔ ’کیونکہ یہ مہمات عملی اقدامات سے زیادہ ڈرامے تھیں۔‘