سی پیک اتھارٹی کے قیام کا مقصد چائینہ پاکستان اکنامک راہداری منصوبے کے تحت جاری تمام ترقیاتی کاموں کو ایک چھتری تلے لانا ہے۔ فوٹو: روئٹرز
پاکستان اور چین نے ’چائینہ پاکستان اکنامک کوریڈور‘ منصوبے میں تیزی لانے کے لیے ’سی پیک اتھارٹی‘ کے بنیادی قواعد و ضوابط پر اتفاق کر لیا ہے اور اگلے ہفتے اس کے نافذالعمل ہونے کا امکان ہے۔
سی پیک اتھارٹی کے قیام کا مقصد چائینہ پاکستان اکنامک راہداری منصوبے کے تحت جاری تمام ترقیاتی کاموں کو ایک چھتری تلے لانا ہے۔
’اردو نیوز‘ کو دستیاب پاکستان کی وزارت منصوبہ بندی کی سی پیک اتھارٹی کے قیام کی سمری وفاقی کابینہ سیکریٹیریٹ کو بھجوائی جا چکی ہے اور توقع ہے کہ کابینہ 12 ستمبر کو ہونیوالے اجلاس میں منظوری دے دے گی۔
سمری کے مطابق 20 مئی 2019 کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سی پیک اتھارٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے لیے وزارت منصوبہ بندی نے قانونی مسودہ ’چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور اتھارٹی آرڈینیس‘ تیار کیا۔
’کابینہ کمیٹی برائے ڈسپوزل آف لیجسلیٹو کیسز‘ نے اس مسودے کا جائزہ لیا اور اپنی سفارشات دیں جسے بعد وزارت قانون نے حتمیٰ شکل دی۔
سمری میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سی پیک اب اگلے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ اس مرحلے میں باہمی تجارت، مارکیٹ تک رسائی، صنعتی تعاون، سماجی و اقتصادی ترقی، غربت کا خاتمہ، گوادر کی ڈویلپمنٹ، علاقائی روابط اور کسی تیسرے ملک کو سی پیک میں شراکت دار بنانے جیسے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ اس لیے ایک نئے انتظامی ادارے کی ضرورت ہے۔کابینہ سے اتھارٹی کے قیام کی منظوری کے بعد فوری طور پر صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس کے قیام کا اعلان کر دیا جائے گا جس کے بعد سی پیک کے تمام منصوبے اس اتھارٹی کے تحت آ جائیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پارلیمنٹ کی سی پیک کمیٹی کا اجلاس بھی ہوا تھا جس میں وزارت منصوبہ بندی ڈویژن کی جانب سے کمیٹی کو سی پیک اتھارٹی کے قیام اور خدوخال کے بارے بریفنگ دی تھی۔
کمیٹی کے چئیرمین جن کا تعلق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سے ہے نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو میں بتایا کہ کمیٹی نے اس اتھارٹی کے حوالے سے وزارت سے مزید تفصیلات آئندہ اجلاس میں طلب کی ہیں تاہم انھوں نے کہا کہ ’ہمارے سامنے قانونی مسودہ نہیں ہے کہ ہم حکومت کو کسی آرڈینینس کے ذریعے اتھارٹی کے قیام سے روکیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ حکومت کا استحقاق ہے کہ وہ پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے اتھارٹی قائم کرے یا آرڈینینس لے کر آئے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’کسی رکن نے سی پیک اتھارٹی کے قیام کی مخالفت نہیں کی تھی تاہم اس حوالے سے کچھ ارکان نے اپنے تحفظات کا اظہار ضرور کیا تھا۔‘
یاد رہے کہ مسلم لیگ ن اپنے دور حکومت میں سی پیک اتھارٹی کے قیام کی مخالف رہی ہے۔ وزارت منصوبہ بندی کے سابق ترجمان عاصم خان نیازی نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو میں کہا کہ مسلم لیگ ن کے دور میں سی پیک اتھارٹی اس لیے قائم نہیں کی جا سکتی تھی کہ ان کی حکومت اسے ضروری نہیں سمجھتی تھی بلکہ ہمارا خیال تھا کہ اس سے انتظامی اخراجات بڑھ جائیں گے۔
’یہ معاملہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی زیر غور آیا تھا اور حکومت نے اس تجویز کی مخالفت کی تھی اس لیے اس وقت اس پر غور موخر کر دیا گیا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک کثیر شعبہ جاتی منصوبہ تھا اور چین کے ساتھ طے ہوا تھا کہ متعلقہ ادارے اپنی تجاویز دونوں ممالک کی منصوبہ بندی وزارتوں کو بھیجا کریں گی۔‘
عاصم خان نے کہا کہ ’پاکستان کی وزارت منصوبہ بندی اتھارٹی یا سیکرٹریٹ کا کردار ہی ادا کر رہی تھی۔ جب بھی ضرورت محسوس ہوتی تھی تو دونوں ممالک کے ورکنگ گروپس آپس میں مل لیتے اور حتمی منظوری کے لیے مشترکہ ورکنگ کمیٹی میں تجاویز پیش کی جاتی تھیں۔‘