غدیر الشیرازی کی شہرت عرب ممالک سے نکل کر دنیا بھر تک پہنچ گئی۔ (تصویر: ٹویٹر)
گڑیوں کی صنعت میں کویتی خاتون غدید الشیرازی کی شہرت عرب ممالک سے نکل کر یورپ، امریکہ اور ایشیائی ممالک تک پہنچ گئی ہے۔ غدیر کی بنائی ہوئی گڑیاں دیکھنے میں اصل معلوم ہوتی ہیں۔
کویتی اخبار القبس کے مطابق دبئی میں منعقدہ عرب ممالک کی خواتین صنعت کاروں کی نمائش میں غدیر الشیرازی کو تیسری پوزیشن ملی ہے۔
غدید الشیرازی نہ صرف گڑیاں بنانے میں ماہر ہیں بلکہ وہ فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔
وہ تنزانیہ اور دیگر پسماندہ افریقی ممالک میں متعدد سکولوں اور گھروں کی تعمیر و تزئین و آرائش کا کام بھی کرتی رہتی ہیں۔
کویتی خاتون کا کہنا ہے کہ گڑیاں بنانے کا کام زیادہ پرانا نہیں۔ سات برس قبل اس فن کا باقاعدہ آغاز کیا۔ پہلی گڑیا کی نمائش پانچ برس قبل برطانیہ میں ایک نمائش میں ہوئی۔
برطانیہ میں گڑیا کو غیر معمولی طور پر پسند کیا گیا۔ اس کے بعد میری ہمت بڑھی اور مزید گڑیاں بنانا شروع کر دیں۔ ابتداء میں سوشل میڈیا پر اپنی بنائی ہوئی گڑیوں کی تصاویر اپ لوڈ کیا کرتی تھی اس کا اچھا رسپانس ملنا شروع ہو گیا۔
اخبار کے مطابق غدیر کا کہنا تھا کہ ابتدا میں ایک گڑیا بنانے میں ایک ماہ کا عرصہ لگتا تھا مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے فن میں اتنی ماہر ہو چکی ہوں کہ ایک گڑیا یا گڈا 48 گھنٹے میں بنا لیتی ہوں۔
گڑیا کے وزن اور نومولود کی مخصوص بو کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں نومولود بچوں کی جلد اور چہرے کے رنگ کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ موم اور دیگر مواد سے تیار کی جانے والی گڑیوں کی جزئیات کے حوالے سے باریک سے باریک امور کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔
ہاتھوں کی لیکروں سے لیکر پاؤں کے تلوں پر ابھرنے والی لکیروں اور ناخنوں تک کو نمایاں انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ دیکھنے والے کو حقیقی بچے کا گمان ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ گڑیوں کے بال بھی ایک ایک کرکے لگائے جاتے ہیں کیونکہ نومولود کے بال کہیں ہوتے ہیں، کہیں نہیں۔ اسی حساب سے بال لگائے جاتے ہیں تاکہ حقیقت کا گمان ہو۔
ٹویٹر اکاؤنٹ پر غدیر کے سینکڑوں فالورز ہیں جنہوں نے اس کے کام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یقین نہیں ہوتا کہ یہ کسی عرب ملک سے تعلق رکھنے والی خاتون ہوں گی۔
غدیر کے مداحوں کا کہنا ہے کہ فنکارہ قدرتی صلاحیتوں کی مالک ہیں جس کا اندازہ ان کے فن کو دیکھ کر ہوتا ہے۔
ایک خاتون کا کہنا تھا کہ جب گڑیوں کے بارے میں انٹرویو پڑھا تو مجھے یقین نہیں آیا کہ یہ سب کچھ ایک خاتون کا کارنامہ ہے اور وہ بھی کویتی، حقیقت کو جاننے کے لیے غدیر کے ورکشاپ میں گئی اور اپنی آنکھوں سے اسے کام کرتے ہوئے دیکھا تو یقین آیا کہ واقعی یہ کویتی فنکارہ ہی ہے جو غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل ہے۔
غدیر فنکارہ ہونے کے ساتھ ایک فلاحی کارکن بھی ہیں۔ نرم دل کی مالکہ غدیر پسماندہ افریقی ممالک میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی کافی کام کرتی رہتی ہیں۔
کئی افریقی ممالک میں انہوں نے سکول تعمیر کروائے اور ضرورت مندوں کے لیے گھر بھی بنوائے۔ غریب بچوں کے لیے ایسے علاقوں میں سکول بنوائے جہاں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں تھا۔