پاکستان میں وزارت قانون و انصاف نے اپنے عملے پر سمارٹ فونز دفتر لانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس پابندی کا اطلاق پہلے گریڈ سے گریڈ 15 تک کے ملازمین پر ہوگا جبکہ گریڈ 16 سے اوپر کے افسران کو اس پابندی سے استثنٰی حاصل ہوگا۔
وزارت قانون و انصاف کی جانب سے جاری کیے گئے سرکلر کے مطابق گریڈ 16 سے کم ملازمین اپنے مہمانوں سے بھی ملاقات استقبالیہ پر ہی کریں گے اور ان کو دفتر جانے کی اجازت نہیں ہوگی تاہم گریڈ 16 سے اوپر کے افسران پر مہمانوں سے دفتر میں ملاقات پر پابندی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔
سرکلر کے مطابق یہ فیصلہ ملک میں بڑھتے ہوئے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
سمارٹ فونز پر پابندی گریڈ 16 سے کم ملازمین پر ہی کیوں؟
اس حوالے سے وزارت قانون و انصاف کی ترجمان کہتی ہیں کہ ’ہماری وزارت میں حساس نوعیت کی دستاویزات موجود ہوتی ہیں اور سمارٹ فونز کی وجہ سے ان کے لیک ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔‘
ترجمان وزارت قانون و انصاف نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گریڈ 16 یا اس سے اوپر کا عملہ اگر کوئی دستاویز لیک کرتا ہے تو اس کا کھوج لگانا آسان ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قدم کسی بھی حساس نوعیت کے دستاویز کو لیک ہونے کے خدشہ کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ماضی قریب میں ایسا کوئی واقع رونما ہوا ہے جس کی وجہ سے سمارٹ فونز پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے؟
انہوں نے بتایا کہ ’کوئی ایسا خاص واقع تو پیش نہیں آیا لیکن ماضی میں اس قسم کی باتیں ضرور ہوتی رہی ہیں جس کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم سیکرٹریٹ سمیت تمام حساس نوعیت کے دفاتر میں موبائل فونز لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ ملازمین کی استعداد کار بڑھانے کے لیے بھی سمارٹ فونز پر پابندی لگائی گئی ہے۔‘
’کیا گریڈ 16 سے نیچے والے تمام ملازم چور ہیں؟‘
سابق بیوروکریٹ فضل اللہ قریشی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے ملازمین میں طبقاتی فرق پیدا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’کیا 16 گریڈ سے کم والے سارے ملازمین چور اور بد معاش ہیں اور اس سے اوپر سب ایماندار ہیں؟ 22 گریڈ کا افسر بھی سکیورٹی رسک تو ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں کبھی اس قسم کی پابندی نہیں لگائی گئی تاہم سرکاری دفاتر میں عملے سے ملنے آنے والے ملاقاتیوں کے بارے میں پہلے بھی استقبالیے پر ہی ملاقات کرنے کی ہدایات تھیں لیکن اس پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا۔
فضل اللہ قریشی نے مزید کہا کہ تمام سرکاری ملازمین کے حوالے سے پولیس کلئیرنس موجود ہوتی ہے اور اگر کسی عملے کو اس قسم کی کارروائی میں ملوث پایا گیا ہے تو اور بات ہے لیکن ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی ملازم سکیورٹی رسک یا ایسی کسی کارروائی میں ملوث پایا گیا ہو۔
مزید پڑھیں
-
پنجاب پولیس کی ویڈیو بنانے پر پابندیNode ID: 432796
انہوں نے یہ بھی کہا اگر اس قسم کی پابندی کا اطلاق کرنا ضروری بھی ہے تو پھر بغیر کسی فرق کے تمام عملے پر کیا جائے۔
ان کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ حساس نوعیت کے معاملات ہوتے ہیں لیکن وہاں تو اس قسم کی پابندیاں کبھی نہیں لگائی جاتیں۔ اس قسم کے اقدام سے کبھی بھی گورننس کی صورتحال بہتر نہیں ہو سکتی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل پاکستان کے صوبے پنجاب میں تمام تھانوں میں سمارٹ فونز لے جانے اور دوران ڈیوٹی اہلکاروں کی ویڈیو بنانے اور انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ تاہم تھانے کے ایس ایچ اوز کو اس پابندی سے استثنٰی دیا گیا تھا۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز پاک‘ گروپ میں شامل ہوں