Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوات: خواجہ سراؤں کی ضلع بدری کا حکم

شانگلہ کے ایک خواجہ سرا کا کہنا تھا کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں اور یہ ہمارا بنیادی آیئنی حق ہے کہ ہم جہاں چاہیں رہیں۔ فوٹو اے ایف پی
خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات میں پولیس حکام نے ضلع میں مستقل سکونت اختیار کرنے والے غیر مقامی خواجہ سراؤں کی ضلع بدری کا فیصلہ کیا ہے۔
ضلع بدر کیے جانے والے خواجہ سراؤں کی تعداد 60 ہے جن پر غیر اخلاقی حرکات اور فحاشی پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
 یہ فیصلہ بدھ ستمبر 18 کو پولیس حکام کی جانب سے بلائے گئے ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں مقامی خواجہ سراؤں کی صدر نادیہ خان اور مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ شریک ہوئے۔

پولیس کے مطابق غیر مقامی خواجہ سراؤں کے خلاف مقامی سطح پر بہت شکایات موصول ہورہی ہیں۔ فوٹو: اردو نیوز

سوات پولیس کے ڈی ایس پی ظاہر شاہ کے مطابق پورے ضلع میں کل 89 خواجہ سرا ہیں جن میں 29 مقامی جبکہ 60 غیر مقامی ہیں۔ ڈی ایس پی ظاہر شاہ نے کہا کہ غیر مقامی خواجہ سرا فحاشی کے مرتکب ہورہے ہیں جس کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جائے گا کیوں کہ ان کے خلاف مقامی سطح پر بہت شکایات موصول ہورہی ہیں۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کسی بھی غیر مقامی خواجہ سرا کو کرائے پر جگہ نہیں دی جائے گی۔ غیر مقامی خواجہ سراؤں کو سوات چھوڑنے کی ہدایت کی جائے گی اور اس سلسلے میں پولیس کو مقامی عمائدین کی حمایت حاصل ہوگی۔
جبکہ تمام خواجہ سراؤں کے میڈیکل ٹیسٹ بھی کیے جائیں گے۔ خواجہ سرا ایسوسی ایشن مقامی خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن کرے گی جس کا اندراج مقامی تھانے میں بھی کیا جائے گا جبکہ خواجہ سرا زنانہ کپڑوں میں بازاروں میں سر عام نہیں گھومیں گے۔

 

سوات کےمقامی خواجہ سراؤں کے صدر گوہر باچا عرف نادیہ خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ غیر مقامی خواجہ سرا ہمارے بھائی ہے وہ بطور مہمان ایک دو دن کے لیے ہمارے پاس آسکتے ہیں لیکن مستقل سکونت اختیار کرنے کی حمایت ہم نہیں کرتے کیونکہ وہ سوات کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ 
سوات میں سکونت اختیار کرنے والےشانگلہ کے ایک خواجہ سرا نے پولیس کے جانب سے اس اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اج تک کسی بھی خواجہ سرا پر فحاشی پھیلانے کے الزام میں کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا ہے اور محض الزامات کو جواز بنا کر ہمیں ضلع بدر کرنا انصاف نہیں۔
’ہم اس ملک کے شہری ہیں اور یہ ہمارا بنیادی قانونی اور آیئنی حق ہے۔ ہم جہاں چاہیں رہیں۔‘ وہ اس بات پر انتہائی افسردہ نظر آئے کہ دنیا کے کسی ملک میں خواجہ سراؤں کے ساتھ ایسا رویہ نہیں رکھا جاتا کہ خواجہ سراؤں پر اپنے ملک میں علاقہ بدری کے احکامات صادر کردئے جائیں۔

 

 مینگورہ شہر کے رہائشی قیصر نے بتایا کہ فحاشی پھیلانے کے الزامات کا حل یہ نہیں کہ پولیس ان کو علاقہ بدر کریں کیونکہ جب یہ دوسرے علاقوں میں جائیں گے تو وہاں پر بھی صورتحال مختلف نہیں ہوگی۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ  ان کے لیے باعزت روزگار کا بندوبست کریں۔
مینگورہ شہر کے وسط سہراب چوک میں ایک راہ چلتے شہری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ماحول خراب کرنے کا الزام صرف خواجہ سراؤں پر ڈالنا ظلم ہیں۔
مینگورہ شہر میں خواجہ سراؤں کو کرائے پر گھر دینے والے صاحب زادہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہیں پولیس کی جانب سے تا حال اس بابت مطلع نہیں کیا گیا ہے جب احکامات مل جائیں گے تو غیر مقامی خواجہ سراؤں کو نکال باہر کیا جائے گا۔

مینگورہ کے ایک شہری کے مطابق خواجہ سراؤں کو صلع بدر کرنے کے بجائے حکومت ان کو روزگار فراہم کریں۔ فوٹو: اردو نیوز

خیال رہے کہ سوات کے شہر مینگورہ میں چند سال قبل اپنے  رہائش گاہوں سے جبری طور پر نکالنے پر خواجہ سراؤں نے احتجاج کیا تھا۔
خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ جہاں ایک طرف وہ خاندانی شناخت سے محروم ہیں تو دوسری جانب معاشرہ بھی قبولیت سے انکاری ہے۔ ’جائیں کہاں حکومت ہمیں راستہ بھی تو دکھائے۔‘
یاد رہے کہ 2017 میں بھی سوات پولیس کی جانب سے غیر مقامی خواجہ سراؤں کو ضلع بدری کے احکامات جاری کیے گئے تھے لیکن بعد میں انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے نوٹس لیے جانے پر ضلع بدری کا حکم واپس لیا گیا تھا۔

شیئر:

متعلقہ خبریں