Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہر اچھا شعر میر کا شعر ہے‘

میر تقی میر خدائے سخن تھے، اردو کے پہلے عظیم شاعر، ان کے شاعرانہ کمالات کا اعتراف غالب نے بھی کیا:
 ریختے کے تمھیں استاد نہیں ہوغالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
 میر کے شعر کا احوال کہوں کیا غالب
جس کا دیوان کم از گلشنِ کشمیر نہیں
 ناسخ نے میر کی شاعرانہ بڑائی اس طرح بیان کی:
شبہ ناسخ نہیں کچھ میر کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
ناسخ سے غالب کا اتفاق اس صورت میں سامنے آیا:
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
’آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں‘
ابراہیم ذوق نے میر کی استادی کا اقراراس طرح کیا:
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زورغزل میں مارا
میر کی استادی کی بات دوسروں نے تو کی ہی لیکن اس کا اظہار میر نے خود بھی کیا۔ 
ریختہ رتبے کو پہنچا ہوا اس کا ہے
معتقد کون نہیں میر کی استادی کا
میر کی عظمت کا اعتراف ہرعہد میں مختلف صورتوں میں ہوتا رہا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

میر تقی میر کی شاعری کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے

شاعری میں بہت سوں نے میر کا اثر قبول کیا، ایک اہم نام جدید غزل کے ممتاز شاعر ناصر کاظمی کا ہے۔ ان کی باذوق والدہ بچپن میں اکثر ان سے کہتیں: ’شاعری کا شوق ہے تو پہلے میرصاحب کو پڑھ لو۔‘
ماں کی ناصر کاظمی نے اس درجہ فرمانبرداری کی کہ میر کی فارسی شاعری پر اردو میں بہترین مضمون لکھنے والے مظفر علی سید کو کہنا پڑا
 میر کو اردو ادب کی تاریخ میں ناصر کاظمی سے زیادہ شاید ہی کسی نے پڑھا ہو۔
عہدِ حاضر میں معروف شاعر افضال احمد سید کی کلامِ میر سے دلچسپی کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ انھوں نے میر کے فارسی دیوان کا اردو میں ترجمہ کیا۔
رواں برس میر کے منتخب کلام کا انگریزی میں ترجمہ چھپا، جس کے مترجم ممتاز ادیب اور نقاد شمس الرحمان فاروقی ہیں۔
شمس الرحمان فاروقی نے میر کے منتخب کلام کی چار جلدوں میں شرح بھی کی جو ’شعر شور انگیز‘ کے عنوان سے چھپی اور بہت مقبول ہوئی۔ اسے میر شناسی میں سنگ میل کا درجہ حاصل ہے۔ 
جہاں سے دیکھیے اک شعر شور انگیز نکلے ہے
 قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں
شمس الرحمان فاروقی نے میر کے بارے میں ’ان صحبتوں میں آخر....‘ کے عنوان سے نہایت عمدہ افسانہ بھی لکھا ہے۔
ان صحبتوں میں آخرجانیں ہی جاتیاں ہیں
نے عشق کو ہے صرفہ نے حسن کو محابا
نامور ادیب اور صحافی خوشونت سنگھ کے ناول ’دلی‘ میں میر کے حالات زندگی پرلطف اسلوب میں بیان ہوئے ہیں۔ چند سال پہلے معروف شاعر سرمد صہبائی نے میر پر ’ماہِ میر‘ کے نام سے بننے والی فلم کا سکرپٹ لکھا اور اس کی ڈائریکشن کے عمل میں بھی شریک رہے۔ 

 میر کی شاعری کا انتخاب بڑے نامور شاعروں ادیبوں نے کیا ہے

نامور سکالر اور شاعر احمد جاوید بھی میر کے دیوانے ہیں، ان کا شعر ہے
 ایسے کب عرفی وظہیر ہوئے
 جیسے شاعر ہمارے میر ہوئے 
 میر کی شاعری کا انتخاب بڑے نامور شاعروں ادیبوں نے کیا ہے، جن میں حسرت موہانی، اثر لکھنوی، مولوی عبدالحق، محمد حسن عسکری، ناصر کاظمی، علی سردار جعفری اور شمس الرحمان فاروقی نمایاں ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ میر کا انتخاب ان لوگوں نے بھی کیا جن کا میدان ادب نہیں مثلاً ممتاز سائنس دان سلیم الزماں صدیقی اور سینیئر سیاست دان ڈاکٹر مبشر حسن۔
عظیم غزل گائیکوں نے کلامِ میر گایا۔ استاد برکت علی خان کی آواز میں یہ غزل کون بھول سکتا ہے؟
 ہستی اپنی حباب کی سی ہے 
یہ نمائش سراب کی سی ہے 
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
مہدی حسن خان کی آواز میں بھی میر کی غزلیں دل کے تار چھوتی ہیں۔
 پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارے جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو ساراجانے ہے
اسی طرح یہ یادگار غزل بھی
 دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
میر کی شاعری میں جو وسعت اور بوقلمونی ہے اسے بیان کرنے کے لیے کلیات میر کو ناول کے مصداق بھی قرار دیا گیا۔ مایہ ناز فکشن نگار انتظار حسین نے لکھا کہ کلیاتِ میر انھیں سرکلر ناول کی طرح نظر آتی ہے۔ شمس الرحمان فاروقی کو میر کا کلام پڑھ کر ڈکنز کا خیال آتا ہے، ان کے بقول ’میر کا کلیات مجھے چارلس ڈکنز کی یاد دلاتا ہے۔ وہی افراتفری، انوکھے اور معمولی اور روزمرہ اور حیرت انگیز کا امتزاج، وہی افراط ، وہی تفریط، وہی بے ساختہ مگر حیرت انگیز مزاح ،وہی بھیڑ بھاڑ، معلوم ہوتا ہے ساری زندگی اس کلیات میں موج زن ہے۔‘
ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انھیں ویران جزیرے پر جانا پڑے تو وہ جن تین کتابوں کو اپنے ساتھ لے جانا چاہیں گے ان میں کلام میر شامل ہوگا۔
نامور شاعر جون ایلیا کے بقول ’اردو غزل کا ہر اچھا شعر میر کا شعر ہے، چاہے اسے کسی نے بھی کہا ہو۔‘
میر کے کلام سے دل چسپی کے متنوع حوالوں کا قصہ طولانی ہے۔ ہم نے اس کی مختصر جھلک اس لیے دکھائی کہ جانا جا سکے کہ میر جنھیں جہاں سے گزرے دو صدیوں سے زائد عرصہ بیت گیا، ان کا فن کس طرح سے آج بھی حسب حال ہے اور اس پر مختلف جہتوں میں کام ہورہا ہے۔ انھیں یاد کیا جا رہا ہے، اسی لیے کلاسیکی ہونے کے باوجود وہ لکھنے پڑھنے والوں کو ہم عصر لگتے ہیں۔
میرادبی میدان میں ایسا بہت کچھ کرگئے ہیں جس کی وجہ سے ان کا چرچا ہمیشہ ہوتا رہے گا۔
 بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

لکھنؤ میں واقع نشان میر (تصویر بشکریہ ونیت ول)

 میر کے حالاتِ زندگی

میر تقی میر1723میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ گھر میں تنگی ترشی تھی۔ والد میر محمد علی فقیر اور درویش تھے۔ بیٹے سے بچپن میں کہا:  بیٹا عشق کرو،عشق ہی اس کارخانے میں متصرف ہے، اگر’عشق نہ ہوتا تو نظمِ کل قائم نہیں رہ سکتا، عشق نہ ہوتا تو نظمِ کل قائم نہیں رہ سکتا تھا۔‘
بیٹے نے باپ کی یہ بات گرہ میں باندھی اور اردو شاعری میں کاروبارِعشق کا عظیم ترین مفسر بنا۔
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق
میر کے سر سے والد کا سایہ 11 برس کی عمر میں اٹھ گیا۔ باپ نے کتابیں ترکے میں چھوڑیں جن پر سوتیلے بھائی نے اپنا حق جتایا۔ کسمپرسی کے عالم میں کوئی امید بر نہ آتی۔ ان حالات میں امیرالامرا صمصام الدولہ نے دستگیری کی۔ روزانہ کا ایک روپیہ وظیفہ مقرر کیا۔ اسی سے شکم کی آگ بجھانا ممکن ہوا۔ نادر شاہ نے 1739میں دہلی میں قتل وغارت کا بازار گرم کیا۔ اس دارو گیر میں میر کے سرپرست نواب کھیت رہے۔
 اس کے بعد میر پھر خوار پھرے۔ آگرے سے دلی اپنے سوتیلے ماموں سراج الدین خان آرزو کے یہاں چلے گئے۔ خان آرزو فارسی زبان کے عالم اور شاعر تھے، ان کی صحبت میں رہ کر میر نے بہت فیض پایا۔ بعد میں میر کی ان سے بگڑ گئی۔ وہ میر سے خار کھانے لگے۔ گردش حالات نے میرکو اتنا ستایا کہ ان پر وحشت سوار ہوگئی۔ جنون طاری ہوگیا۔ ان حالات میں والد کی ایک خاتون مرید نے ان کا علاج کرایا۔ رفتہ رفتہ طبیعت بحال ہوئی۔ کچھ عرصہ میر جعفر نامی شخص سے علمی استفادہ کیا۔
’ذکر میر‘ (میر کی فارسی میں لکھی گئی آپ بیتی، جس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر نثار احمد فاروقی اورانگریزی ترجمہ پروفیسر سی ایم نعیم نے کیا ہے۔ یہ اردو کے کسی شاعر کی پہلی خود نوشت ہے ) میں لکھتے ہیں:
’وہ نہایت مہربانی سے مجھے پڑھاتے، یعنی اپنا دماغ کھپاتے اور مجھے کچھ سکھاتے، میں بھی تابہ مقدور ان کی خدمت کرتا یعنی جوکچھ میسر تھا، ان کے لیے خرچ کرتا، ناگاہ ان کے وطن یعنی عظیم آباد سے ایک خط آیا اور وہ بادل نخواستہ ادھر چلے گئے۔
اس کے بعد امروہہ کے سید سعادت علی سے ربط ضبط رہا، انھی کے کہنے پر شعرگوئی کی طرف توجہ کی۔ ان کے بقول ’میں نے سخت محنت کی اور اپنی مشق اس درجے تک پہنچا دی کہ موزونان شہر کے لیے مستند ہوگیا۔ میرے شعر تمام شہر میں مشہور ہوگئے اور خردو بزرگ کے کانوں تک پہنچ گئے۔‘ (ذکرِ میر) 
میر تقی میر کو زندگی میں تھوڑی سی راحت اس وقت نصیب ہوئی جب انھوں نے نواب رعایت خان کی ملازمت کی۔ وہ میر کی قدرکرتے لیکن پھر ان کی کسی بات سے ناراض ہو کر ان کے یہاں جانا چھوڑ دیا۔ اس نیک دل کو مگر میر کا اتنا خیال تھا کہ ان کے چھوٹے بھائی کو نوکری پر رکھ لیا۔ اس کے بعد اور بھی کئی امرا کے یہاں ملازمت کی۔
نادر شاہ کے بعد احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کی چیرہ دستیاں دیکھیں، جنھوں نے دل چیر کر رکھ دیا۔ 60 برس کی عمر میں لکھنئو سدھارنے سے پہلے کے چند برس گوشہ نشین رہے۔
سنہ 1782میں نواب آصف الدولہ کی خواہش پر لکھنؤ میں قیام پر آمادہ ہوئے۔ وہاں پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ ایک جگہ مشاعرہ ہے تو اس میں شرکت کے واسطے چلے گئے۔ ان کا مخصوص لباس اور وضع قطع دیکھ کر حاضرین نے ٹھٹھا اڑایا۔ ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ حضور کا وطن کون سا ہے؟ تو فی البدیہہ یہ اشعار پڑھے:
کیا بودو باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے، منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کر ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں، اس اجڑے دیار کے 
اب لوگوں پر کھلا کہ وہ ایرے غیرے نتھو خیرے نہیں میر صاحب ہیں تو اپنے رویے پر شرمندہ ہو کر معافی مانگی۔ آصف الدولہ نے دو سو روپیہ وظیفہ مقرر کیا۔
دلی سے ان کی حسین یادیں وابستہ نہ تھیں، وہاں ان کے دل ودماغ کو بہت چرکے لگے لیکن وہ شہر جس کے کوچوں کو انھوں نے اوراقِ مصور کہا تھا اس کی یاد انھیں ستاتی رہی اور وہ لکھنئو کی برائی کرتے رہے:
 آباد اجڑا لکھنئو چغدوں سے اب ہوا
مشکل ہے اس خرابے میں آدم کی بودوباش
خرابہ دلی کا دو چند بہترلکھنئو سے تھا
 وہیں میں کاش مرجاتا، سراسیمہ نہ آتا یاں
قسمت کے لکھے کو لیکن کون ٹال سکتا ہے، زندگی کے آخری تین عشرے لکھنؤ میں زیست کی۔ 
زمانے نے رکھا مجھے متصل
پراگندہ روزی، پراگند دل

سنہ 2016 میں ماہ میر کے عنوان سے پاکستانی فلم بنائی گئی

زمانے کے حالات دگرگوں، ذاتی حالات پریشان کن، رہی سہی کسر بیماریوں نے پوری کردی، ’ذکر میر‘ کے آخر میں خوں رلاتی یہ سطریں ملاحظہ ہوں:
دانتوں کے درد کی کیا کہوں۔ حیران تھا کب تک علاج کروں۔ آخر دل برداشتہ ہو کر ایک ایک کو جڑ سے اُکھڑوا دیا۔
روزیِ خود را بہ رنج از دردِ دندان می خورم
نان بہ خون تر می شود تا پارہ ای نان می خورم
(میں اپنی روزی بڑی تکلیف کے ساتھ کھاتا ہوں۔ دانتوں کے درد کی وجہ سے روٹی بھی خون میں تَر ہو جاتی ہے تب کہیں ایک ٹکڑا حلق سے نیچے اترتا ہے) 
غرضیکہ ضعفِ قُویٰ، بیدماغی، ناتوانی، دل شکستگی اور آزردہ خاطری سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہت دن نہ جیوں گا۔ زمانہ بھی رہنے کے لائق نہیں رہا ہے اس سے دامن جھٹک دینا ہی اچھا ہے۔ اگر خاتمہ بخیر ہو جائے تو یہی آرزو ہے ورنہ اُسے اختیار ہے۔
 لکھنئو میں ستمبر 1810میں میر نے آخری سانس لی۔
 کہا جاتا ہے کہ یہ میرکی زندگی کا آخری شعرتھا:
ساز پسیج آمادہ ہے سب قافلے کی تیاری ہے
مجنوں ہم سے آگے گیا ہے، اب کے ہماری باری ہے
میر نے اپنی شاعری کے بارے میں جس خوش گمانی کا اظہار کیا تھا اسے وقت نے صحیح ثابت کیا 
جانے کا نہیں شورسخن کا مرے ہرگز
تاحشر جہاں میں میرا دیوان رہے گا۔

شیئر: