Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لی مارکیٹ کا خاموش گھنٹہ گھر

آج انجینئر لی تو نہیں رہا مگر اس کی تعمیر کی گئی لی مارکیٹ اور کلاک ٹاور اسی جگہ ہی موجود ہیں۔
جب ہم نہیں تھے، اس وقت بھی وقت تھا، جب ہم نہیں ہوں گے تب بھی وقت کا وجود رہے گا۔ کہتے ہیں کہ خراب گھڑی بھی 24 گھنٹوں میں دو مرتبہ درست وقت ضرور بتاتی ہے۔ مگر وقت گھڑی کا محتاج نہیں ہوتا۔
آج مجھے وقت اور گھڑی کا تعلق اس لیے بھی یاد آ رہا ہے کیوں کہ پاکستان میں چند گھنٹہ گھر لوگوں کو وقت کے گزرنے کا احساس دلاتے رہے ہیں۔ برصغیر پر انگریزوں کی حکمرانی کے دنوں میں کافی شہروں میں مختلف مقامات پر کلاک ٹاورز بنائے گئے تھے۔ یہ کلاک ٹاورز مارکیٹوں میں لگے ہوئے بھی ہوتے تھے، جس کی وجہ سے یہاں لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا اور ہر وقت چہل پہل رہتی تھی۔ لیکن اس زمانے کی اچھی بات یہ تھی کہ ان کلاک ٹاورز کی نہ صرف دیکھ بھال ہوتی تھی بلکہ انہیں اہم بھی سمجھا جاتا تھا۔
آج ہمارے شہروں میں اکا دکا ہی کلاک ٹاور ہی ہیں جو بہتر حالت میں ہیں اور ان گھنٹہ گھروں میں نصب گھڑی کی سوئیاں حرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
کراچی کبھی ’عروسہ ایشیا‘ رہا ہے، مگر آج اس کی حالت کافی بدحال نظر آتی ہے، انگریزوں کے زمانے میں تعمیر کی گئی عمارات آج خستہ حالی کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے اس شہر کا حسن ماند پڑ گیا ہے۔
لی مارکیٹ کراچی کی اہم ترین مارکیٹوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ مارکیٹ اس شہر کی سب سے پرانی مارکیٹ بھی ہے۔ جہاں نصب ٹاور کلاک کی عمارت اب تجاوزات کی وجہ سے کم ہی دکھائی دیتی ہے، اس کا اصل چہرا جیسے ریڑھوں، رکشوں اور سبزی بچنے والوں کی وجہ سے ڈھکا ہوا ہے۔ میں جب اس جگہ پہنچا تو مجھے ٹاور کلاک ہی نمایاں طور نظر آیا مگر باقی عمارت کے خدو خال مشکل سے ہی دکھائی دیتے ہیں۔

اس مارکیٹ کی بحالی اور اس کو ایمپریس مارکیٹ کی طرح اصل شکل میں لانے کی ضرورت ہے۔

گندگی میں گھرے اس لی مارکیٹ کے ٹاور کلاک کی تاریخ سے یہاں کاروبار کرنے والے واقف ہی نہیں ہیں، وہ بس اتنا جانتے ہیں کہ یہ انگریزوں کے زمانے کی بنائی ہوئی عمارت ہے اور بہت پرانی ہے۔ بہت کوشش کی اس عمارت کی افتتاح کی کوئی تختی کہیں نظر آجائے مگر وہاں ایسا کچھ بھی نہیں ملا۔
یہ عمارت در حقیقت اس وقت کے انگریز انجینئر میشم لی کے نام سے منسوب ہے۔  جہنوں نے کراچی کی ترقی و ترویج میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ اس زمانے میں جب یہ مارکیٹ تعمیر ہوئی تو یہاں سبزیاں، پھل اور دیگر زرعی اجناس کا کاروبار شروع ہوا۔
یہ 1927 کا زمانہ تھا، جب یہ مارکیٹ تیار ہوئی۔ تب یہ کراچی کا ایک معاشی مرکز بنا گیا اور لوگوں کے لیے اس تک رسائی بھی آسان تھی۔ اس کے علاوہ، نیپئر روڈ، امباک مئن روڈ، ریور سٹریٹ، کندن سٹریٹ، شیدی گوٹھ روڈ اور دیگر کئی روڈ اس مارکیٹ سے جڑے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں اس مارکیٹ کی تعمیر پہ ایک لاکھ سے زائد رقم  خرچ کی گئی تھی۔
سنہ1937 میں اس عمارت کے مزید دو بلاک بنائے گئے، کیوں کہ یہاں صارفین کے ضروریات بڑھ گئی تھیں، اس سلسلے میں 1940 میں کلاک ٹاور بھی نصب کیا گیا، یہ ٹاول کلاک اس علاقے کی ایک خاص شناخت بن گیا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کلاک کی سوئیاں تھم گئی، مگر وقت چلتا رہا اور لی مارکیٹ بد سے بدتر بن گئی۔
گو کہ اس مارکیٹ کا مقصد ہی یہاں کے لوگوں کو اس جگہ کاروبار کرنے کی سہولت دینا تھا، اور یہ سلسلہ چلتا بھی رہا لیکن اگر کسی عمارت کی اصل صورت ہی نظر نہ آئے اور خوبصورتی کے لیے نصب کیے گئے کلاک ٹاور کی دیواروں میں دراڑیں پڑنی شروع ہو جائیں اور کسی کو بھی اس کی اہمیت کا اندازہ نہ ہو تو لی مارکیٹ آنے والوں وقتوں میں محض تصویروں میں دکھائی دے گی۔

کراچی کبھی ’عروسہ ایشیا‘ رہا ہے، مگر آج یہ شہر کافی بدحال نظر آتا ہے۔

یہ ایک خوبصورت سی عمارت ہے، جہاں کاروبار کرنے والے لوگوں کے لیے کافی سہولیات بھی موجود ہیں، جیسا کہ اس عمارت کی چھت کو جس طرح اس زمانے میں لوہے کی چادروں سے ڈھانپ کر تیار گیا گیا ہے، تاکہ یہاں کاروبار کرنے والے بارشوں اور دیگر موسمی اثرات سے محفوظ رہیں۔ ایک بڑے سے ہال میں لوگ آج بھی مچھلی، گوشت اور سبزیاں بیچ رہے ہیں۔ مگر ان کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ یہ مارکیٹ دن بدن زوال کا شکار ہو رہی ہے۔ آج سے کچھ عرصہ قبل ایمپریس مارکیٹ کی بحالی کی گئی تھی، جس کے بعد اس کی اصل شکل لوگوں کو دیکھنا نصیب ہوئی ہے۔ اس قسم کی عمارات ہمارے ماضی کا پتہ دیتی ہیں، اور ان سے کئی تاریخی واقعات بھی جڑے ہوتے ہیں۔
اس عمارت کو ایک صدی ہونے کو ہے لیکن آج بھی یہ جاذب نظر ہے۔ تقسیم سے قبل کئی ایسی عمارات ہمارے ہاں موجود ہیں جنہیں اب بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب ان کی بحالی کے لیے سنجیدگی سے کام کیا جائے۔

انگریزوں کے زمانے میں تعمیر کی گئی عمارات آج خستہ حالی کا شکار ہیں۔

آج ٹاور کلاک کی منزل کی جانب جانے والے دروازے بند ہیں، ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ آخری بار اس گھنٹہ گھر سے گھنٹی کب بجی تھی اور کب کسی شہری نے اس کی جانب دیکھ کر وقت دیکھا ہوگا۔ لیکن آج یہ ٹاور محض سبزی اور پھل فروشوں سے گھرا ہوا ہے۔ جبکہ یہاں کاروبار کرنے والوں کو ماضی میں شہری حکومت یہ جگہ خالی کرنے کا بھی کہہ چکی لیکن اس پر عمل آج تک نہیں ہوا ہے۔
آج انجینئر لی تو نہیں رہا مگر اس کی تعمیر کی گئی لی مارکیٹ اور کلاک ٹاور اسی جگہ ہی موجود ہیں۔ میں کافی دیر تک اس خاموش گھنٹہ گھر کو تکتا رہا، جس کی سوئیاں اب ایک ہی جگہ ساکت ہیں۔ جہاں سے اب ہر گھنٹے پر کوئی گھنٹی نہیں بجتی ہے۔ مگر یہ کراچی شہر کا ایک شاندار ورثہ ہے جسے بچانے اور محفوظ کرنا نہ صرف حکومت بلکہ کراچی کے لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے۔
اس لیے اس مارکیٹ کی بحالی اور اس کو ایمپریس مارکیٹ کی طرح اصل شکل میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کو یہ پتہ چل سکے کہ ہم بھی ایسی تاریخی عمارت کے قدردان ہیں۔

شیئر: