انڈیا کے خلائی ادارے اسرو کے ایک سائنسدان کو ملک کے جنوبی شہر حیدرآباد میں ان کے فلیٹ میں قتل کر دیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق سائنسدان ایس سوریش شہر کے قلب میں واقع امیرپیٹ کے انناپورنا اپارٹمنٹ کے ایک فلیٹ میں مردہ پائے گئے۔
56 سالہ سائنسدان اسرو کے نیشنل ریموٹ سنسنگ سینٹر سے تعلق رکھتے تھے اور وہ گذشتہ تقریبا 20 برس سے حیدرآباد میں رہائش پذیر تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ایس سوریش کے سر پر کسی وزنی چیز سے وار کیا گیا ہے جس سے ان کی موت واقع ہوئی ہے۔ پولیس کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج کی جانچ کی جا رہی ہے تاکہ قاتل کا پتہ لگایا جا سکے۔
پولیس نے ایس سوریش کی موت کو کسی سازش کا نتیجہ کہنے سے انکار کیا ہے لیکن سوشل میڈیا پر بعض لوگ ان کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے سازش قرار دے رہے ہیں۔
پاور آف دھرما نامی ایک صارف نے لکھا: ’اسرو/ این آر ایس اے کا ایک اور سائنسدان شہید ہو گيا۔‘ انہوں نے نریندر مودی، وزیراعظم کے دفتر، وزات داخلہ اور وزیر داخلہ امت شاہ کو ٹیگ کر کے لکھا ہے کہ ’یہ ایک سازش ہے اور اس کی مکمل جانچ کی جانی چاہیے۔'
Isro scientist murdered. There has been numerous cases of murders specially of scientist of BARC, ISRO, DRDO
Matted of national security, Govt must act fasthttps://t.co/toA2RPQJEL
— The Ruthless (@Ruthlessindia) October 2, 2019
جبکہ رتھلیس انڈیا نامی ایک صارف نے لکھا ہے کہ ’اسرو سائنسداں کا قتل۔ بارک، اسرو، ڈی آر ڈی او کے کئی سائنسدانون کا قتل ہو چکا ہے۔ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ حکومت کو تیزی سے حرکت میں آنا چاہیے۔'
ایس سوریش جنوبی ریاست کیرالہ کے رہنے والے تھے۔ ان کی اہلیہ چینئی کے ایک بینک میں ملازم ہیں جبکہ ان کا بیٹا امریکہ میں ہے اور ایک بیٹی بھی ہے۔ وہ گذشتہ کئی برسوں سے حیدرآباد میں تنہا رہ رہے تھے۔
چینئی سے ان کی اہلیہ نے جب انھیں فون کیا تو کسی نے فون نہیں اٹھایا جس پر ان کی اہلیہ کو تشویش ہوئی اور پھر انھوں نے اسرو میں ان کے ساتھیوں کو یہ جاننے کے لیے فون کیا کہ آیا وہ دفتر آئے ہیں یا نہیں۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ وہ دفتر بھی نہیں پہنچے ہیں تو وہ چینئی سے حیدرآباد کے لیے روانہ ہوئیں جبکہ ان کے ساتھیوں نے پولیس میں شکایت کی۔ پولیس جب وہاں پہنچی تو ان کے فلیٹ کا دروازہ باہر سے بند پایا۔ دروازہ توڑنے پر ایس سوریش کو فرش پر مردہ پایا گيا۔ ان کے سر پر چوٹ کے نشانات تھے۔
انڈین خبروں کے لیے ’’اردونیوز انڈیا‘‘ گروپ جوائن کریں