Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمر قید کی مدت کتنی؟ فیصلہ نہ ہو سکا

چیف جسٹس نے کہا کہ جیل مینوئل کو مدنظر رکھتے ہوئے ضابطہ فوجداری میں ترمیم نہیں کی جاسکتی، فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے عمر قید کی سزا کی مدت کا تعین کرنے سے متعلق کیس کی سماعت روک دی ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جیل مینوئل کی بنیاد پر ضابطہ فوجداری میں ترمیم نہیں کی جا سکتی۔
 سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ملزم ہارون الرشید کے وکیل ذوالفقار ملوکا کی درخواست پر چیف جسٹس کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
ملزم کی جانب سے دو مختلف جرائم کی سزاؤں کو ایک ساتھ کاٹنے کی اجازت کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی تاہم عدالت نے عمر قید کی سزا کی مدت 25 سال ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے قانونی نکتے کی تشریح کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

چیف جسٹس کے مطابق عمر قید سے متعلق برطانیہ، نیوزی لینڈ، امریکہ اور آسٹریلیا کے فیصلے موجود ہیں، فوٹو: ریڈیو پاکستان

سماعت کے شروع میں چیف جسٹس نے درخواست گزار ہارون الرشید کے وکیل ذوالفقار ملوکا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ کے موکل کے خلاف دو مقدمات درج ہوئے۔ پہلا مقدمہ 1997 میں جبکہ دوسرا مقدمہ 1998 میں درج ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک مقدمے میں آپ کے موکل کی نظر ثانی درخواست بھی خارج ہوچکی ہے۔ نظر ثانی درخواست خارج ہونے کے بعد مقدمے کو متفرق درخواست کے ذریعے دوبارہ نہیں سن سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے موکل کی طرف سے دوسرے مقدمے میں اپیل خارج ہونے کے بعد نظرثانی کی درخواست دائر نہیں کی گئی۔ ’بہتر ہے آپ اس مقدمے میں نظرثانی کی درخواست دائر کرلیں۔’ تاہم چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نظرثانی درخواست دائر ہونے کی صورت میں زائدالمیعاد ہونے کا معاملہ بھی دیکھنا ہوگا کیونکہ فیصلہ اٹھارہ سال قبل 2001 میں ہوا تھا۔
وکیل نے دائر درخواست واپس لیتے ہوئے کہا کہ وہ چیف جسٹس کا مشورہ مانتے ہوئے نظرثانی کی اپیل دائر کریں گے۔ عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار نظرثانی دائر کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ نظر ثانی درخواست کے بعد معاملے کی دوبارہ سماعت ہو گی۔
سماعت کے دوران ملزم کے وکیل اپنے مقدمے کے بنیادی نکات سے بھی لاعلم نکلے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے تو دو ہفتے کے لیے بڑی تیاری کی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’میں رات تین بجے سویا ہوں۔ چھ ممالک کی عدالتوں کے فیصلے دیکھے۔ چھ ممالک نے عمر قید سے متعلق قانون طے کر رکھا ہے۔ عمر قید سے متعلق برطانیہ، نیوزی لینڈ، امریکہ اور آسٹریلیا کے فیصلے موجود ہیں۔
انھوں نے کہا کہ عمر قید کے تعین سے متعلق براہ راست سپریم کورٹ میں کوئی مقدمہ زیر سماعت نہیں ہے۔ عموماً فوجداری مقدمات میں اکھٹی سزا کاٹنے کا لکھ دیا جاتا ہے۔ تاہم اکھٹی سزا کاٹنے سے قبل یہ تعین کرنا ہو گا کہ عمر قید کی سزا کتنی ہے؟
دوران سماعت پاکستان بار کونسل کے وکیل احسن بھون نے مقدمے میں فریق بننے کی درخواست دائر کی۔ چیف جسٹس اور ان کے درمیان دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔ احسن بھون بولے کہ پاکستان بار کونسل کا اس مقدمے سے متعلق سٹیک ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ کیا پاکستان بار کونسل کو عمر قید کی سزا ہوئی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ تیاری کرکے آئیں ہم آپ کو سن لیں گے۔ پاکستان بار کونسل کے وکیل نے کہا کہ ہمارے جیسے ایک غریب ملک کی مثال بھی موجود ہے۔ ’زمبابوے میں عمر قید کی سزا تاحیات طے کی گئی۔ تاحیات عمر قید کی سزا کے تعین سے جیل میں غذا اور ادویات کی قلت ہو گئی، بعد میں عدالت کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔‘
وکیل نے کہا کہ ہماری جیلوں میں قیدیوں کو پانی والی دال دی جاتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پانی والی دال کھانے کی بات قتل کرنے سے پہلے سوچنی چاہیے۔ ’رحم دلی الگ بات ہے قانون الگ معاملہ ہے۔ ہم نے قانون کو دیکھنا ہے۔ ہم نے سوچا تھا اس مقدمے کو طے کریں گے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ جیل مینوئل میں لکھا گیا کہ عمر قید کی سزا پچیس سال ہے اوراس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ انھوں نے کہا کہ جیل مینوئل تو جیل کے امور چلانے کے لیے ہوتا ہے۔ ’جیل مینوئل کو مدنظر رکھتے ہوئے ضابطہ فوجداری اور تعزیرات پاکستان میں ترمیم نہیں کی جا سکتی۔  ‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انڈین عدالت نے فیصلہ دیا کہ عمر قید کی سزا کتنی ہو گی، ہر مقدمے میں اس کا تعین کرنا عدالت کا کام ہے۔ انڈیا میں عمر قید کی سزا کا تعین عدلیہ کا اختیار ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: