جے آئی ٹی نے تفتیش کی لیکن ایک بهی ثبوت قانون کے مطابق نہیں ہے: عدالت
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ہائیکورٹ نے لاہور کے علاقے سمن آباد میں جیل ملازمین کے ہاسٹل پر حملے کے الزام میں سزائے موت پانے والے چار ملزمان کو بری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
جمعے کو لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس قاسم خان نے فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پولیس ناقص تفتیش کرتی ہے جب ملزم بری ہوتے ہیں تو کہا جاتا ہے عدالتیں ملزم بری کر دیتی ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس قاسم خان اور جسٹس اسجد جاوید گهرال پر مشتمل دو رکنی بنچ نے چاروں ملزمان کی اپیل پر فیصلہ سنایا چاروں ملزمان کو ٹرائل کورٹ نے جرم ثابت ہونے پر 21، 21 بار موت کی سزا سنائی تھی۔
فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس قاسم خان نے ناقص تفتیش پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’حد ہے، اتنے اہم مقدمے میں تفتیش بدترین ہے تو باقی مقدمات میں کیا ہوگا تفتیش خود ناقص کرتے ہیں، پهر کہتے ہیں عدالتیں ملزم بری کر دیتی ہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ تفتیش جے آئی ٹی نے نہیں بلکہ عام سب انسپکٹر نے کی ہے۔ جے آئی ٹی نے تفتیش کی لیکن ایک بهی ثبوت قانون کے مطابق نہیں ہے۔‘
2012 میں جیل ہاسٹل پر حملے میں دس اہلکار ہلاک ہوئے تھے (فوٹو اے ایف پی)
چاروں ملزمان کے وکیل عثمان نسیم نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ان ملزمان میں سے تین مزدور اور ایک ریلوے کا ملازم تھا ۔ اور چاروں ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں تھے۔ پولیس نے ان کو ایک سال بے جا حراست میں رکھا اور ایک سال بعد جب لاپتہ افراد کے کمیشن نے ان افراد کو پیش کرنے کا حکم دیا تو پولیس نے پہلے سے درج دہشت گردی کے ایک مقدمے میں ان کو نامزد کر دیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ مقدمے میں جتنے گواہان بلائے گئے وہ حملے میں بچ جانے والے زخمی تھے، جنہوں نے بیان دیا تھا کہ حملہ آوروں کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے وہ ان کو پہچانتے نہیں دو گواہان ایسے تھے جو ساتھ عمارت کی چھت سے اندھیرے میں کاروائی دیکھ رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسی شہادت پر بھی ٹرائل کورٹ نے ایسا سخت فیصلہ دیا کسی نے یہ تک جانچنے کی کوشش نہیں کی کہ جن افراد کو ملوث کیا جا رہا ان کی اپنی حیثیت کیا ہے۔ خانہ پوری کے لیے بے گناہ افراد کو پکڑ کر دہشت گرد بنا دیا گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہائیکورٹ نے پولیس کی تفتیش رد کر دی ہے اس میں کچھ نہیں تھا حتی کہ قانونی طور پر بھی مقدمہ بہت کمزور تھا۔
’شناخت پریڈ میں چاروں ملزمان کو ایک ساتھ کھڑا کر دیا گیا جو کہ بذات خود قانون کی نفی ہے۔‘
ملزمان کو ٹرائل کورٹ نے 21، 21 بار موت کی سزا سنائی تھی (فوٹو اے ایف پی)
انہوں نے بتایا کہ ایک ملزم کرامت کپڑے بنانے کی فیکٹری کا ملازم تھا جبکہ ذوالفقار ریلوے کا ملازم تھا جس کی گمشدگی کی رپورٹ خود ریلوے حکام نے درج کروا رکھی تھی، اسی طرح دوسرے دو ملزم عبدالحفیظ اور افضال بھی مزدور تھے۔
’تفتیش میں یہ کہا گیا کہ یہ چاروں افراد ایک گراؤنڈ میں بیٹھے تھے جب اچانک ان کو پکڑا گیا تو ان کے پاس تھیلے تھے جن میں بندوقیں اور ہینڈ گرنیڈ تھے۔ کیا دہشت گرد قتل عام کے بعد پارکوں میں جاتے ہیں؟‘
انہوں نے کہا ریاست خود اپنے بے قصور اور غریب شہریوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کر رہی ہے جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔
خیال رہے کہ 12 جولائی 2012 میں لاہور کے علاقے سمن آباد میں خیبر پختونخواہ سے آئے زیر تربیت جیل ملازمین ایک پرائیویٹ ہاسٹل میں ٹھہرے تھے جہاں پر دہشت گرد حملہ ہوا۔ جس کی ذمہ دار تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔ اس وقت لاہور کے ڈی آئی جی آپریشن رائے محمد طاہر کے مطابق پانچ سے چھ حملہ آوروں نے ٹیپو سلطان روڈ پر واقع ہاسٹل پر صبح ساڑھے پانچ بجے حملہ کیا تھا جہاں 31 زیر تربیت جیل ملازمین ٹریننگ سنٹر جانے کے لیے تیار ہورہے تھے۔ اس حملے میں دس افراد ہلاک اور سات زخمی ہوئے تھے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں