’ڈاکٹر صاحب!! میرے پیٹ میں درد ہے، کوئی دوائی دے دیں‘، جی۔جی۔۔۔وہ۔۔ میں چھوٹا ڈاکٹر ہوں، بڑے ڈاکٹر صاحب آئیں گے تو وہ آپ کو دوائی دیں گے‘۔ یہ عام سا فقرہ اور اس کا جواب روزانہ وارڈ میں سننے کو ملتا ہے۔ لیکن یہ چھوٹے ڈاکٹر ہیں کون؟
لٹمین کے علاوہ کوئی اور سٹیتھوسکوپ لیں گے نہیں، لیکن مجال ہے کبھی اس سے آسکلٹیشن کی ہو۔۔ وہ تو رکھی ہے صرف سلیفی لینے کے لیے۔
اس دنیا میں ایک ایسی مخلوق پائی جاتی ہے، جو وائٹ کوٹ پہنے، لٹمین کندھوں پہ لٹکائے، اک خاص ادا سے چشمہ لگائے، ہسپتال اور وارڈ میں ایسے گھومتے ہیں جیسے ان سے بڑا سرجن اور فزیشن آج تک پیدا نہیں ہوا، لیکن جیسے ہی ہسٹری لینے کی باری آتی ہے تو ایسے دوڑ لگاتے ہیں جیسے گائنی ٹیسٹ میں پوزیشن لے لی ہو۔
مزید پڑھیں
-
'کالج کی یادوں کا وزنی بوجھ'Node ID: 434596
-
کیونکہ سب کچھ گوگل سرچ میں نہیں ملتاNode ID: 436196
-
سوشل میڈیا کے استعمال کا بچوں پر اثراتNode ID: 436361
تو یہ مخلوق، جو اپنے آپ کو چھوٹا ڈاکٹر کہتی ہے اصل میں ہے فائنل ائیر، ایم بی بی ایس۔۔ جو ہاؤس آفسیر اور سٹوڈنٹ لائف کے درمیان سینڈوچ بنے ہوتے ہیں۔
اگر کوئی مریض جو انہیں کبھی ڈاکٹر صاحب کہہ دے تو ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے آسکر مل گیا ہو، اور اگلے ہی منٹ وہی مریض ان سے پوچھ لے ڈاکڑ صاحب مجھے مسئلہ کیا ہے تو ایسا منہ بناتے ہیں جیسے بریانی کھاتے ہوئے منہ میں الائچی آ گئی ہو۔
سر نے پوچھا! وہیز کیا ہوتا ہے؟ جواب آیا سر! پیشنٹ سیٹیاں مارتا ہے۔۔ بندہ ایسی سادگی پہ فدا نہ ہو تو کیا ہو؟
ابھی کل کی بات ہے، ایک ڈاکٹر صاحبہ (جو ماشاء اللہ فائنل ایئر کی سٹوڈنٹ ہیں اور اپنے آپ کو ابھی سے کنسلٹنٹ سمجھتی ہیں) ہسٹری لینے گئیں، پوچھا آپ کے کتنے بچے ہیں؟ جواب آیا چار۔۔ پھر پوچھا!! ’اچھا، آپ کی شادی ہوئی ہے؟‘ مریض حیران، پریشان کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟؟ ایسے میں ساتھ کھڑے پروفیسر صاحب بولے۔۔ ڈاکٹر صاحبہ آپ کا کالج مرضی پورا میں ہے، پیرس میں نہیں۔ لیکن ان کا ایسا کانفیڈنس تھا کہ بولیں، سر!! غلطی بھی انسان سے ہی ہوتی ہے۔ اب اس کے سوا کیا کہا جائے کہ ایسی سادگی پر پورا میڈیکل کالج قربان ہو جائے۔
ایک اور سرجن صاحب، جو کہ ماشاء اللہ آپریشن تھیٹر ڈریس پہن کر یوں سیلفیاں لیتے ہیں جیسے ایف آر سی ایس پاس ہوں، کل آپریشن تھیٹر (اوٹی) گئے۔ وہاں کہتے ہیں سر!! آج آپریشن کے دوران میں آپ کی معاونت کروں گا۔ سر نے پوچھا جگر کس سائیڈ پہ ہوتا ہے؟ سینہ چوڑا کر کے بولے!! سر لیفٹ پر، جواب میں ظاہر ہے خاموشی ہی ہو سکتی تھی، لہذا ایسا ہی ہوا۔
مریض سے بیماری کی ہسٹری لینی آئے یا نہ آئے، ایگزامینیشن آتا ہو یا نہیں، میڈیکل کٹ ہو یا نہ ہو لیکن لٹمین لازمی لٹکایا ہو گا۔ پوچھا اس کی کیا وجہ ہے؟ جواب آیا ’آپ کو کم از کم ڈاکٹر جیسا لگنا تو چاہیے‘۔
ہر پروفیسر سے، ہر وارڈ میں جتنی مرضی بےعزتی ہو، مجال ہے جو کبھی محسوس ہو، لیکن باہر جا کر لازمی کہیں گے، آج تو وارڈ میں بہت تعریف ملی۔ اپنی جتنی مرضی بے عزتی ہو، اپنے سے جونیئر کو کہیں گے کہ ہم تمہارے سینئر ہیں جو ہم نے کہا وہ حرف آخر ہے۔
ڈاکڑز کی غیر موجودگی میں خود کو وارڈ کا ہیڈ سمجھیں گے، وارڈ بوائز پر حکم چلائیں گے، لیکن جیسے ہی پروفیسر صاحب وارڈ میں داخل ہوئے یہ غائب۔
کيونکہ یہ کالج کی سب سےسینیئر موسٹ کلاس ہے، سب ڈاکڑ صاحب کہہ کہ بلاتے ہیں، لیکن کبھی کھبی یہ عزت بھی راس نہیں آتی، تبھی ایسے بلنڈرز کریں گے کہ اللہ کی پناہ۔ لیکن ان کے بنا کسی بھی کالج میں رونق کہاں؟ یہ نہ ہوں تو ہر سال نئے ہاؤس آفیسرز کہاں سے آئیں؟ مریضوں کی ہسٹری کون لے؟ کون ان کا ایگزامینیشن کرے؟؟ اگر یہ نہ ہوں تو وارڈ میں بے عزتی کس کی ہو؟؟
فائنل ایئر اس لیے بھی خاص ہے کیونکہ یہ سٹوڈنٹ لائف کا آخری سال ہے، اس سال کی گئی شرارتیں، غلطیاں، دوبارہ کیسے ہوں گی؟ پانچ سال جن کے ساتھ اکھٹے گزاریں ہوں ان کے بغیر چھٹا سال کیسے گزرے گا؟؟
فائنل ایئر تو دل کے پاس اس لیے بھی ہے کہ معلوم نہیں دوبارہ کب کہاں اکھٹے ہوں؟ کلاس لیکچر، پروکسی، ٹیسٹ، ہسڑیاں، ایگزامینیشن، یہ سب تو چار سال چلتے ہیں، مگر فائنل ایئر میں یہ اس لیے بھی اچھے لگتے ہیں کہ کالج لائف کا آخری سال ہے۔
تو فائنل ایئر کے چھوٹے ڈاکٹرو، کھیلو، وارڈ جاؤ، بے عزتی کراؤ، شاباش لو، وارڈ پارٹی کرو، پڑھو۔۔ لڑو۔ مسکراؤ، ایچ او بننے کی تیاری کرو۔۔ اور کالج لائف کا آخری سال اس طرح گزارو ۔۔ کہ اس کا حق ادا ہو جائے۔ لیکن یہ جملہ یاد رکھو ’یہ فائنل ایئر میری زندگی کی سب سے نالائق کلاس ہے، ان کو ایگزامینیشن بھی کرنا نہیں آتا، ان کی تھڑڈ ایئر کے ساتھ کلاس لی جائے‘۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں