گھونسہ لگتے ہی اسے دن میں تارے نظر آئے اور وہ سوزوکی پک اپ کے پائدان سے گر گیا۔ اف یہ امیروں کے دل اور مزدوروں کے ہاتھ اتنے سخت کیوں ہوتے ہیں اس نے گال کو سہلاتے ہوئے سوچا اور اٹھ کر سڑک کی انہی بند دکانوں کے آگے فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا جہاں وہ آدھے گھنٹے سے موجود تھا۔
ارد گرد اب بھی 20 کے قریب مزدور اپنی ضرورتوں اور مجبوریوں کو ماتھے پر سجائے ہوئے تھے۔ چونکہ سوزوکی پک اپ چند مزدور لینے کو آئی تھی اور وہ تعداد میں زیادہ تھے اس لیے مجبوریاں ضرورتوں سے گتھم گتھا ہوگئی تھیں۔ ایک مزدور نے دونوں ہاتھوں سے مکے چلا دیے وہ اسی کی زد میں آ کر چاروں شانے چت ہوا۔ فطرت کے اصولوں کے مطابق زور آور ہی بارآور ٹھہرے۔ پک اپ فاتحین کو لے کر چلی گئی۔
مزید پڑھیں
-
’کل صبح کیمرہ لے کر اخبار کے دفتر آ جانا‘Node ID: 434246
کچھ تو کرنا ہوگا وہ سوچ میں تھا، نیند اس سے کوسوں دور تھی۔ دو سال بڑا بھائی ارشد ساتھ والی چارپائی پر شاید سو گیا تھا۔ وہ ایسا گھر تھا جسے نظر لگ گئی تھی۔ نو بہن بھائیوں میں بس یہی دو کنوارے تھے۔ باقی بڑے بہن بھائی اپنے گھر گھرہستی والے۔ گھر کے واحد کفیل بڑے بھائی اسلم سعودی عرب میں لاپتہ تھے۔ آمدن رک جانے اور جمع پونجی ختم ہو جانے کے باعث گھر مکان میں تبدیل ہو گیا تھا۔
اگرچہ کچھ سال قبل بھی دولت کی بہت زیادہ ریل پیل تو نہیں تھی مگر اتنی ضرور کہ امی جی درجن بھر غریب خواتین کی ہر ماہ چپکے سے مدد کیا کرتیں۔ ریفریجریٹر، رنگین ٹی وی جیسی سہولیات جو اس وقت آسائشیں تصور کی جاتی تھیں محلے میں سب سے پہلے ان ہی کے گھر وارد ہوئیں۔ دن میں کئی بار دروازہ بجتا پڑوسی بچے برف لینے آتے۔ بعض نے اپنے کٹورے تک ان ہی کے ریفریجریٹر میں رکھوائے ہوتے۔ حیرت ہے کہ اتنا بڑا نہیں تھا مگر پھر بھی اس میں اتنی جگہ بن جاتی کہ کچھ پڑوسنیں عید قربان کا گوشت لفافے پر نام لکھ کر رکھوا دیا کرتیں۔
بدھ کے روز شام ساڑھے سات بجے برآمدے میں چٹائی بچھا دی جاتی گھر میں رونق سی لگ جاتی۔ محلے کی عورتیں اور بچے آٹھ بجے والا ڈراما ان کے رنگین ٹی وی پر دیکھا کرتے۔ چائے سے تواضع بھی کی جاتی۔ اس وقت دودھ بھی محبت کی طرح خالص اور گاڑھا ہوتا تھا، کم دودھ میں زیادہ چائے بن جاتی امی کہتیں مہمانوں سے گھر میں برکت ہوتی ہے۔
اس نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا۔ بارونق گھر سنسان پڑا تھا، دیواریں سائیں سائیں کر رہی تھیں۔ برکت بھی مادہ پرست ہوتی ہے؟ اس نے سوچا۔ برکت پیسوں سے ہوتی ہے اور پیسوں میں ہی ہوتی ہے؟ جس گھر سے پیسہ روٹھ جائے وہاں برکت بھی اٹھ جاتی ہے؟ تھوڑے ہی عرصے میں ہی وقت کتنا بدل گیا تھا۔ امی جی کو خرابی حالات اور بیماری کے باعث بھائی اکرم کے پاس جہلم بھجوا دیا گیا تھا۔ پیسے ختم ہو چکے تھے۔ خودداری، ماضی کا رہن سہن اور سفید پوشی کا بھرم اپنے پرائے کسی سے کچھ بھی مانگنے کی راہ میں حائل تھا۔ دیوار پر لگے بدیسی کلاک نے ٹن کی ہلکی آواز سے رات کا ایک بجا دیا۔ اس نے بے چینی سے کروٹ لی۔ کچھ تو کرنا ہوگا۔ اس نے ٹھان لی اور سو گیا۔
صبح سویرے اس نے جینز اور جوگر پہنے اور ایک پرانی شلوار قمیض کالے شاپر میں ڈال کر راولپنڈی کے علاقے ہاتھی چوک صدر پہنچ کر اس نے اوٹ میں پرانی شلوار قمیض پہنی اور منہ پر تھوڑی مٹی مل کر مزدوروں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ گھونسہ کھانے والے واقعے کے چند منٹ بعد ایک گاڑی آئی تو وہ پھر لپکے۔ ہمیں ساٹھ روپے والے چاہیے۔ پک اپ میں کھڑے موٹے شخص نے آواز لگائی۔ یہ سنتے مزدور بڑبڑاتے ہوئے رک گئے۔ ان دنوں مزدوروں کی ایک دن کی دیہاڑٰی اسی روپے ہوا کرتی تھی۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پک اپ پر سوار ہو گیا ۔ایک بوڑھا مزدور بھی ساتھ ہو لیا۔
صدر کے قریب ہی ایک سرکاری ادارے میں تعمیراتی کام ہو رہا تھا وہاں پہنچتے ہی ان دونوں کا نام رجسٹر پر لکھا گیا اور کام پر لگا دیا گیا۔ اسے ایک ٹائر والی ہتھ ریڑھی پر سیمنٹ ریت بجری کا تیار مصالحہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پھینکنے کی ذمہ داری ملی۔ مشقت کی عادت نہ تھی سو تیسرے پھیرے میں ہی اس کی چیں بول گئی۔ ٹھیکیدار نے لعن طعن کے بعد مصالحہ اوپری منزل پر پہنچانے کا حکم صادر کر دیا۔ مصالحہ بھری پرات کندھے پر رکھ کر بانس کی سیڑھی چڑھنا اسے گویا کے ٹو سر کرنے جیسا لگا۔ پرات تھامتا تو سیڑھی پر پاوں پھسلتے سیڑھی تھامتا تو پرات لرزنے لگتی آدھے میں تھا کہ پرات اس کے اوپر ہی الٹ گئی۔ ٹھیکیدار با آواز بلند اس موٹے کو ’خراج تحسین‘ پیش کر رہا تھا جو ایسا مزدور پکڑ لایا تھا۔ آخری وارننگ کے ساتھ اسے ہتھوڑا اور چھینی تھما کر اوپری منزل کی دیوار پر جھریاں مارنے کا کہا گیا۔ یہ کام پہلے چند منٹ تک ہی آسان تھا۔ جون کی چلچلاتی دھوپ اور لوہے کی چھینی تیز گرم۔۔۔ ارد گرد دو اور مزدور بھی یہی کام کر رہے تھے جن کی رنگت سیاہ سے نیلگوں مائل ہو رہی تھی۔ ہر مزدور کا رنگ پیدائشی کالا نہیں ہوتا بلکہ حالات کے جبر کی حدت انہیں سیاہی مائل کر دیتی ہے۔ ہتھوڑا چلاتے ہوئے اس نے اپنے نرم ہاتھوں کو دیکھا۔ نو عمری میں والد کی وفات اور بہن بھائیوں میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس نے گھر میں سبھی سے خوب پیار سمیٹا تھا۔ اس سے گھر کا کوئی کام نہ کروایا گیا۔ پانی بھی خود نہ پیتا۔ سکول جانے سے پہلے اس کے بوٹوں کے تسمے بہنیں باندھا کرتی۔ اب وہی کام سے عاری ہاتھ لوہے اور اینٹوں سے بِھڑ رہے تھے۔ اس کے ماتھے کا پسینہ اس کی آنکھوں میں داخل ہو ا اور نمی میں اضافہ کر گیا۔
ٹھیکیدار کی کرسی کے گرد دیہاڑی کے حصول کے لیے مزدور لائن بنائے کھڑے تھے، شام کے ساڑھے پانچ کا وقت تھا۔ نہانے کے باوجود وہ تھکن سے چور تھا۔ بازو شل اور ہاتھوں میں چھالے ابھر آئے تھے۔ جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس دیکھ کر لمحہ بھر کو تو ٹھیکیدار بھی اسے نہ پہچانا۔ پھر اس نے ساٹھ روپے نکال کر اس کی دکھتی ہتھیلی پر رکھے اور رجسٹر آگے کر دیا۔ سائن کرتے وقت اس نے دیکھا کہ ادائیگی کے خانے میں ساٹھ کی بجائے اسی روپے لکھا ہوا تھا۔ اس نے ٹھنڈی آہ بھری اور چل دیا۔
صدر سے واپسی پر اسے یاد آ رہا تھا کہ ایک فوٹو سٹوڈیو میں ٹریننگ کے دوران روزانہ شام واپسی پر اسے بیس روپے اعزازیہ ملا کرتا تھا جو وہ واپسی پر سنوکر کلب میں اڑا دیا کرتا، گھر سے جیب خرچ علیحدہ ملتا۔ مگر آج وقت ویسا نہیں تھا۔ اس نے چلتے چلتے اپنی دائیں ہتھیلی کو کھول کر دیکھا۔ ہتھیلی میں ایک پچاس اور ایک دس روپے کا نوٹ تھا۔ اس نے نوٹوں کو مٹھی میں زور سے بھینج لیا۔ ہتھیلی کا ایک چھالا پھٹا اور اس میں سے پانی نکل کر نوٹوں میں جذب ہو گیا اور فضا میں اس کی محنت کی پہلی کمائی کی خوشبو پھیل گئی۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں