Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کٹورا جھیل، جہاں ڈوبنے کا جی چاہتا ہے

گول پیالے کی مانند، چہار سو پہاڑ، صاف شفاف نیلگوں تو کبھی گہرے سبز رنگ کا پانی،  کنارے پر پیلے گلابی اور جامنی پھول اوران کے درمیاں اڑتی تتلیا،  یہ ہے کٹورا جھیل۔ لفظوں میں اس کی خوبصورتی کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ سطح سمندر سے 11500 فٹ بلندی پر واقع کٹورا جھیل  صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع اپر دیر میں واقع  ہے۔
تیمرگرہ سے تھل کا رستہ ہموار اور ناہموار سڑک پر مشتمل ہے۔ تھل سے ایک رستہ کمراٹ ویلی کی طرف جاتا ہے جب کہ دوسرا رستہ جندرئی کی طرف جاتا ہے ۔
ہماری منزل چونکہ جہاز بانڈہ اور اس سے آگے کٹورا جھیل ہے لہٰذا ہم جندرئی کے لیے نکل پڑے۔ کرائے کی جیپ نے ہمیں جندرئی تک دو گھنٹوں میں پہنچایا۔ جندرئی سے آپ گدھا، گھوڑا یا اپنی مرضی کا جانور کرائے پر حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر جیپ پر پانچ سے چھ لوگ سوار ہوں تو وہ تکیی بانڈہ تک بھی چھوڑ آتی ہے، جہاں سے ٹریک شروع ہوتا ہے۔ تین سے چار گھنٹوں تک جہاز بانڈہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ جو لوگ ٹریکنگ نہیں کر سکتے وہ یہاں سے خچر یا گھوڑا کرائے پر لے سکتے ہیں۔ ٹریک چیڑھ (پائن) کے گھنے جنگل سے گزرتا ہوا آہستہ آہستہ بلندی کی طرف جاتا ہے۔

چار گھنٹوں کی ٹریکنگ کے بعد ہم جہاز بانڈہ پہنچ چکے تھے۔ پہاڑوں میں گھرا ہوا سر سبز و شاداب وسیح میدان، یہاں سیاحوں کے لیے محدود پیمانے پر خیموں کی سہولت میسر ہے لیکن خیال رہے کے محدود پیمانے پر۔ اگر زیادہ لوگ جا رہے ہیں تو اپنا انتظام پہلے سے کر کے جانا بہتر ہوگا۔

یہاں تھوڑی دیر سستانے کے بعد اندر کا آوارہ گرد کیمپ کے اندر قید نہ رہ سکا اور ہم نکل گئے مٹر گشت کے لیے۔ میری منزل تھی راجہ آبشار اور اس کے پہلو میں ناگن دریا۔ یہ منظر دل کے آر پار اترنے والا تھا۔ آبشار کا سفر شدید مشکل ثابت ہوا تھا۔ بڑی محنت کے بعد ہم ندی کو درخت کے تنے پر سے چلتے، بیٹھتے اورلیٹتے پار کر کے آبشار کے سامنے پہنچ گئے۔

یہ دل موہ لینے والا منظر تھا۔ ندی، آبشار سے آنے والی پھوار، ناگن کے روپ والے اس دریا یا ندی کے ٹھنڈے یخ  فیروزی پانی میں ڈوبنے کا جی چاہتا ہے۔ یہاں پہنچے تک شام کی سرخی پھیل چکی تھی، جلد ہی بادلوں میں گھری سیاہی مائل شام اس منظر پر غالب آنا شروع ہو گئی۔ اب واپسی کا سوچ کر ہی جان جا رہی تھی، ایسے لگا گویا سارے دن کی تھکان یکلخت جسم میں امڈ آئی ہو۔

جس راستے سے اترا تھا اسی پر واپسی بیحد مشکل تھی، لہٰذا ناگن دریا کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ایک قدرے لمبے راستے سے ہوتے ہوئے اوپر پہنچے۔ اندھیرا پھیلنے کے بعد جب اوپر پہنچا تو آبشار والی ندی کو پار کرنے کے لئے ایک مزید اترائی اور چڑھائی کا سامنا تھا۔ لیکن یہ منظر اس تمام تھکاوٹ کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت تھا۔ دن بھر کی تھکاوٹ کی وجہ سے کھانا کھاتے ہی نیند کی آغوش میں چلا گیا۔

صبح سویرے اٹھا تو منظر کمال کا تھا۔ بادل بہت نیچے تیر رہے تھے، پائین کے گھنے جنگل میں بادلوں کا رقص ایک منفرد اور دلفریب منظر تھا۔

ناشتے اور کچھ ساتھیوں کے صبح جلدی نہ اٹھنے کی وجہ سے کٹورا جھیل کا ٹریک شروع کرتے کرتے دس بج چکے تھے اور سورج کی تپش شدت اختیار کر چکی تھی۔ یہاں شروع  کا راستہ بہت خوبصورت اور سرسبز ہے۔ دو گھنٹوں کی ٹریکنگ کے بعد منی کٹورا جھیل نظر آئی۔

اس جھیل سے پانی کا بظاہر اخراج نہیں ہوتا۔ زمین کے اندر ہی اندر سے کہیں دور ندی کی صورت اس کا پانی جاتا ہے۔
جہاں سے چھوٹی جھیل نظر آتی ہے وہیں سے بڑی کٹورا جھیل کا مشکل والا سفر بھی شروع ہوتا ہے حتیٰ کہ جو لوگ خچر پر آتے انہیں بھی اس جگہ سے آگے پیدل ہی جانا پڑتا ہے، کیونکہ کہ خچر بھی اس راستے پر نہیں چل سکتا بلکہ یہاں راستہ ہے ہی نہیں، بس پتھر ہی پتھر ہیں اور اوپر کی طرف جانا ہے۔

 مسلسل چڑھائی چڑھتے الٹے ہاتھ آبشاریں، سیدھے ہاتھ سبز پہاڑ، نیچے نیلی جھیل، سامنے برفیلی چوٹیاں کہ جن کے سائے میں کٹورا چھپی ہوئی ہے۔ اس حسینہ کی طرف چلتے جانا ہے، چڑھتے جانا ہے اور آخری چڑھائی تو پھروہ آتی ہے کہ جسے چاروں ہاتھوں پاؤں کی مدد سے ہی چڑھنا پڑتا ہے۔

 بھیڑوں کا ایک ریوڑ بھی اوپر پہاڑ پر چڑھ رہا تھا۔ ان کے پیچھے ہم نے بھی عمودی چڑھائی چڑھنا شرو ع کر دیا۔ اس وقت تک ہماری حالت غیر ہو چکی تھی جیسے ہی اس چڑھائی سے سر باہر نکلتا ہے، سامنے آنکھوں کے راستے پورے وجود میں اترتی ہوئی جھیل کٹورا نمایاں ہوتی ہے۔

سنگلاخ چٹانوں کے حصار میں کبھی نیلی تو کبھی سبز ہوتی جھیل کٹورا، ایک بھرپور حسن کا مکمل شاہکار جھیل کٹورا۔  ہم یہاں ایسے وقت پہنچے تھے کہ نہ جھیل پر رش تھا نہ شور شرابہ صرف سکون تھا، سکوت تھا اور اک ٹھہراؤ تھا جس میں جی بھر کے ہم نے اس قدرت کے نظارے کو محسوس کیا اور واپسی کا سفر شروع کیا۔

واپسی پر ہم نے کچھ دیر منی کٹورا جھیل پر قیام کیا۔ سورج آہستہ آہستہ غروب ہونے کے سفر پر تھا۔ آخری روشنی پہاڑوں پر بےحد خوبصورت دکھائی دے رہی تھی۔ یہ تھا ہمارا کٹورا جھیل کا سفر۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: