Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جگجیت سنگھ، جنھوں نے گیتوں کو امر کر دیا

فلم میں جگجیت سنگھ کے کام کی اہمیت اپنی جگہ لیکن موسیقی میں ان کی شناخت کا معتبر ترین حوالہ غزل گائیکی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
جگجیت سنگھ بچپن میں اپنے والد، امر سنگھ کے ایما پر موسیقی کی طرف راغب ہوئے۔ موسیقی کے اسرار جاننے کے واسطے پنڈت چھگن لال شرما کے شاگرد ہوئے۔ ان کے بعد استاد جمال خان کی شاگردی اختیار کی۔ فنِ موسیقی کی  باریکیاں ان سے جانیں۔ مختلف راگوں کا علم حاصل کیا۔
ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق ان کا ٹیلنٹ سکول کے زمانے میں سامنے آ گیا۔ ذوق وشوق کو جس خاص واقعہ سے مہمیز ملی اس کا تعلق بھی سکول کے دور سے ہے۔
بات کچھ یوں ہے کہ گھرمیں رسالہ ’ستیاگ‘ آتا تھا، جس میں صوفی رنگ میں لکھا ایک گیت انھیں بھا گیا۔ اسے کاغذ پر نقل کیا اور سوچ لیا کہ اسے کوی دربار میں سنائیں گے۔ جلد وہ لمحہ آن پہنچا۔
جگجیت نے بھیروی راگ میں گیت گا کر محفل لوٹ لی۔ لوگوں نے خوش ہو کر ان پر سِکّے نچھاور کیے۔ سامعین نے نوخیز سے کچھ اور سنانے کا تقاضا کیا تواس نے فلم ’بیجو باورا‘ میں شامل محمد رفیع کا یہ گانا: ’او دنیا کے رکھوالے، سن درد بھرے میرے نالے‘ سنا کر انھیں مسحور کر دیا۔
اس زمانے میں جگجیت کے دماغ پر فلمیں دیکھنے کا بھوت سوار تھا، ’ناگن‘ اور ’شیریں فرہاد‘ جیسی فلمیں صرف دل کے تار چھولینے والے گانوں کی وجہ سے بار بار دیکھیں۔

سنہ 1976 میں جگجیت کا پہلا البم ’دی ان فور گیٹ ایبل‘ مارکیٹ میں آیا۔ فوٹو اے ایف پی

جگجیت اپنے فن کے تشکیلی دورمیں محمد رفیع کے دیوانے تھے۔ کالج کے ایک فنکشن میں جہاں تقریباً چار ہزار لوگ موجود تھے انھوں نے گرو دت کی فلم ’پیاسا ‘کا محمد رفیع کی آواز میں گایا جانے والا یہ مشہور گیت سنا کا حاضرین سے خوب داد سمیٹی: ’یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے۔‘
جالندھر ریڈیو میں انھیں کام کرنے کے مواقع میسر آ رہے تھے لیکن وہ جانتے تھے کہ ان کے پاس جو ہنر ہے اسے صحیح معنوں میں فروغ بمبئی میں ہی مل سکتا ہے۔ وہ سنہ 1965 میں آنکھوں میں سپنے سجائے اس شہر پہنچے۔
 شروع کے برسوں میں خاصی تگ ودو کرنی پڑی لیکن ہمت نہیں ہاری۔ اشتہاری فلموں کے لیے گایا۔ محفلوں میں آواز کا جادو جگایا، لیکن وہ جس بریک کے متلاشی تھے وہ نہیں مل پا رہا تھا۔
اس زمانے میں ایک  خاتون چترا سے متعارف ہوئے، موسیقی سے مشترکہ محبت نے دونوں کے درمیان محبت کی بنا ڈالی اور وہ جیون ساتھی بن گئے۔ چترا سنگھ اب زندگی نہیں فنی سفر میں بھی ان کی ہم سفر ٹھہریں۔
سنہ 1976 میں ان کا پہلا البم ’دی ان فور گیٹ ایبل‘ مارکیٹ میں آیا تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ خاص طور پر البم میں شامل اس نظم نے بہت مقبولیت حاصل کی: ’بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔‘
اس کامیابی کے بعد ان کے لیے راستے کھلتے چلے گئے۔
سنہ1979 میں ان کا ریکارڈ ’کم الائیو‘ آیا تو اسے بھی پذیرائی حاصل ہوئی۔

 

سنہ1981 میں فلم ’پریم گیت‘ کا یہ گانا بھی ان کی آواز میں امر ہوگیا: ’ہونٹوں سے چھولو تم مرا گیت امر کر دو۔‘
سنہ 1982میں ریلیز ہونے والی فلم ’ارتھ ‘میں بھی انھوں نے یادگارگیت گائے:
 ٭کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے
٭جھکی جھکی سی نظر
٭تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
 فلم’ دشمن ‘ کایہ گیت بھی کون بھول سکتا ہے: 
چٹھی نہ کوئی سندیس
 جانے وہ کون سا دیس
جہاں تم چلے گئے
فلم میں جگجیت سنگھ کے کام کی اہمیت اپنی جگہ لیکن موسیقی میں ان کی شناخت کا معتبر ترین حوالہ غزل گائیکی ہے جس کو انھوں نے نئی رفعتوں سے ہم کنار کیا۔ انھوں نے اپنی آواز سے غزل کی صنف کو ہی وقار نہیں بخشا بلکہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں اُردو دم توڑ رہی تھی وہاں بڑے پیمانے پراس زبان کے شاعروں کا کلام سماعتوں سے آشنا کرکے اس کی بڑی خدمت کی۔
 اُن کی غزل گائیکی اس بنا پر بھی اہمیت کی حامل ہے وہ اسے خاص طبقے کے دائرے سے نکال لائے۔ اس کے سامعین کا حلقہ وسیع کیا، یہی وجہ ہے کہ ان کے البم کمرشلی بھی کامیاب رہے ۔ 
نمونے کے طور پران کی گائی دو غزلوں کے پہلے شعر ملاحظہ کریں :
 سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آرہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
(امیر مینائی)
 کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر،پھر بھی
یہ حسن وعشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی
(فراق گورکھپوری)
 جگجیت سنگھ نے چترا سنگھ کے ساتھ مل کر بھی بڑی کامیابی سے غزلوں کو گایا۔
ان کی غزل گائیکی کو ایک نئی جہت اور پہچان اس وقت ملی جب گلزار نے غالب پر ڈراما سیریل میں کلام غالب گانے کے لیے جگجیت سنگھ کا انتخاب کیا۔ اس کڑے امتحان میں وہ سرخرو ہوئے اور بطور غزل گائیک ان کے رتبے میں اضافہ ہی ہوا۔ 
٭بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے 
 ہوتا ہے شب وروز تماشا مرے آگے
٭دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
شروع میں انھوں نے غالب کی غزلوں کو اکیلے گایا لیکن بعد میں چترا کا ساتھ بھی مل گیا۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ بھی پیش آیا۔ تیسری قسط چلنے کے بعد کسی آدمی کا جگجیت سنگھ کے گھر ٹیلی فون آیا تو چترا نے اٹھایا، وہ صاحب، جگجیت سنگھ سے بات کرنا چاہتے تھے، ان سے کہا گیا کہ کوئی پیغام ہو تو بتادیں، اس نے کہا کہ میرا کوئی پیغام نہیں میں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ ڈرامے میں سب اچھا بھلا چل رہا تھا تو پھر فی میل آواز گھسانے کی کیا ضرورت تھی؟ 
مزید پڑھیں

 

جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ کامیابیوں سے معمور زندگی بسر کررہے تھے کہ بیچ میں انھیں ایسے صدمے سے دوچار ہونا پڑا جو انسان کو جیتے جی ماردے۔
سنہ 1990 میں ان کا 20 سالہ بیٹا ویوک جسے پیار سے وہ بابو کہتے، ٹریفک حادثے میں فوت ہوگیا، اس ناگہانی موت نے میاں بیوی پر قیامت ڈھادی۔ ان کی دنیا اجڑگئی۔ غم کی ماری چترا نے گلوکاری چھوڑ دی اور یوں گائیکی کی یہ معروف جوڑی ٹوٹ گئی۔
 سنہ 1941 میں راجستھان کے علاقے سری گنگا نگر میں آنکھ کھولنے والے جگجیت سنگھ، بڑے گلوکار ہی نہیں بڑے انسان بھی تھے۔ غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کے لیے  پیش پیش رہتے۔
23 ستمبر 2011 کو انہیں برین ہیمبرج ہوا۔ کئی دن کومہ میں رہنے کے بعد وہ بمبئی میں 10 اکتوبر2011 کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔

جگجیت سنگھ اور مہدی حسن

جگجیت سنگھ موسیقی میں مہدی حسن کو گُرو مانتے۔ ان کا کہنا تھا: ’اگر کسی کو غزل سیکھنی ہے تو مہدی حسن صاحب سے سیکھے۔‘
سنہ2005 میں پی آئی اے کی گولڈن جوبلی تقریبات کے سلسلے میں وہ  پاکستان آئے تو مہدی حسن کی خیریت دریافت کرنے گئے اور ان کے چرن چھوئے۔

 

سنہ1999 میں انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے گھر بھی پرفارم کیا۔ اس موقع پر سابق پاکستانی حکمران نے طبلہ بجایا۔
سنہ 1979میں وہ ضیاالحق کے دور میں پہلی دفعہ پاکستان آئے تو یہاں کے سیاسی حالات اتھل پتھل تھے، اس کے باوجود ان کی آمد کا اخبارات میں خوب چرچا ہوا۔ کراچی پریس کلب میں بڑی تعداد میں لوگ ان کو سننے کے لیے آئے۔ انڈین ہائی کمشنر کے گھر ہونے والی محفل میں بھی انھیں پذیرائی ملی۔ وہ جب تک پاکستان میں رہے، انھیں نجی محفلوں میں گانے کے لیے دعوت نامے موصول ہوتے رہے۔
سنہ 1983 میں پاکستان کرکٹ  ٹیم انڈیا کے دورے پر گئی تو وہ  بیٹے کو کھلاڑیوں سے آٹو گراف دلانے ہوٹل لے کر گئے، اس موقع پر پاکستانی کرکٹروں نے جگجیت سنگھ کو بتایا کہ ان جیسا کوئی نہیں گاتا اور وہ ان کے فین ہیں۔
شوبز کی خبروں کے لیے ’’اردو نیوز شوبز‘‘ جوائن کریں

شیئر: