Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خیرات اور لنگر پر راضی ہونے والے لوگ‘

ہم خیرات اور لنگر کا چلن عام ہونے پر راضی ہونے والے لوگ ہیں۔ فائل فوٹو: سوشل میڈیا
پاکستانی سوشل میڈیا پر آج کل ایک اشتہار بہت مقبول ہے۔ کئی نامور اکاؤنٹس اسے شیئر کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ داد و تحسین کے ڈونگرے  برسا رہے ہیں۔ 
مارکیٹنگ کی دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگ، اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹس سے اشتہار کو شیئر کرتے ہوئے ترغیب دے رہے ہیں کہ کمپنیوں کو ایسے اشتہارات بنانے چاہییں جو اخلاقی پیغام بھی دیتے ہوں۔ 
ٹی وی پر نظر آنے والے کئی اشتہارات سرمایہ دارانہ نظام پیداوار کے تحت بننے والے بیانیے کا  حصہ ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد پاپولر کلچر میں پراڈکٹ کی تشہیر تو ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ جڑی ہوئی اس حقیقت کی تشہیر بھی ہوتی ہے جوکہ سرمایہ دارانہ بیانیے کو سامنے رکھ کر تشکیل دی جاتی ہے۔
یہ اشتہارات صرف پراڈکٹ ہی نہیں بیچتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پاپولر کلچر میں کامیابی اور ناکامی کے بیانیے کی بھی تشکیل کرتے ہیں۔ کامیابی اور ناکامی کو بہت ہی سطحی اور بیلک اینڈ وائٹ انداز میں  پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ایڈورٹائزنگ کا ہی کمال ہے کہ لوگ  پاپولسٹ قیادت کو ایسے سمجھتے ہیں کہ جیسے وہ ’ٹو منٹس نوڈلز‘ کی طرح  فوری پک کر تیار ہو جائیں گے۔

کمپنیاں افراط زر کے حساب سے تنخواہوں میں اضافے کیوں نہیں کرتیں؟۔ فوٹو: سوشل میڈیا

یہ اشتہارات معاشرے میں سیاسی جدوجہد کی جگہ ایکٹوزم کو فروغ دیتے ہیں۔ جن میں ہمیں پروڈکٹ بیچتے ہوئے لوگ کبھی سکول کھولتے، غریبوں کے خیرات اکٹھی کرتے اور خیرات دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ معاشرے میں منظم سیاسی جدوجہد کی جگہ جب ایکٹوزم پروان چڑھنے لگتی ہے تو معاشرے بڑی منزلوں اور حقیقی تبدیلی سے دور ہوتے جاتے ہیں ۔ایسے ہی جیسے جیسے خیرات کا چلن عام ہوتا ہے تو معاشرے کے اندر حقوق مانگنے، ان کے لیے جد وجہد کرنے  کی سوچ بھی پست ہونے لگتی ہے۔ غربت کو خدا کی تقسیم سمجھ کر قبول کر لیا جاتا ہے اور یہیں سے خرابی کا آغاز ہوتا ہے۔ معاشرے طبقاتی مسائل کی وجوہات پر غور کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ 
اس اشتہار کے سادہ سے پلاٹ میں کیا دیکھا ایک نظر اس پہ ڈالتے ہیں۔
کہانی  کا پلاٹ بہت ہی سادہ ہے۔ ایک کارپوریٹ سی ای او ہے جو گھر سے لنچ لے کر آتا ہے، جتنا کھا سکتا ہے کھا لیتا ہے اور باقی چھوڑ دیتا ہے۔ یہ جوٹھا کھانا اس کا چپڑاسی اٹھا کر لے جاتا ہے۔ ایسا تقریبا روزانہ ہی ہوتا ہے۔ پھر ایک دن وہ کھانا نہیں لاتا، یہ بات جب چپڑاسی کو پتہ چلتی ہے تو وہ مایوس ہوتا ہے۔ ایک دن سی ای او کو پتہ چلتا ہے کہ اس کا چپڑاسی اس کا جوٹھا کھا کر بھی خدا کا شکر ادا کرتا ہے۔ یہ بات اس کی ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے۔  اور وہ اس کے بعد کھانے کے دو حصے کرنے لگتا ہے۔
اب چپڑاسی کو جوٹھا کھانا نہیں کھانا پڑتا بلکہ وہ سیٹھ کا دیا ہوا کھانا کھاتا ہے اور خدا کا شکر ادا کرتا ہے۔ جس کے بعد ایک میسج آتا ہے کہ دنیا میں کھانا ضائع ہوتا ہے اس دوسروں تک پہنچائیں وغیرہ وغیرہ۔
اشتہار کو ری واینڈ کرتے ہیں۔ اب کی بار مرکزی کردار چپڑاسی ہے۔ اس کی کہانی اور اس پلاٹ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ چپڑاسی ایک بڑی کمپنی میں کام کرتا ہے دن رات محنت کرتا ہے۔ لیکن اس کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی باعزت طریقے سے کھا سکے۔ اس کے ذمہ دار کون ہو سکتے ہیں؟ پہلے نمبر پر تو وہ کمپنی یا کمپنیاں ہو سکتی ہیں جو کہ ملازمین کو اس قدر تنخواہیں بھی نہیں دیتیں کہ  وہ دو وقت عزت کی روٹی باعزت طریقے سے  کھا سکیں۔ یا وہ حکومت جس کے دور میں افراط زر اس قدر بڑھا ہے کہ لوگ قلیل تنخواہ میں دو وقت کا کھانا بھی افورڈ نہیں کر سکتے ۔اور وہ بھی ایسی حکومت کے دور میں جس کا وزیراعظم پہلی دن تقریر میں میل نیوٹریشن کے حوالے دیتا تھا۔

اس کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی باعزت طریقے سے کھا سکے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

تیسرا سوال کہ کمپنیاں افراط زر کے حساب سے تنخواہوں میں اضافے کیوں نہیں کرتیں؟
سی ای او نے کیوں نہیں سوچا کہ میری کمپنی میں کام کرنے والا شخص اگر میرا جوٹھا کھا رہا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا مجھے اس کی تنخواہ میں اضافہ نہیں کرنا چاہیے؟ لیکن تنخواہ میں اضافے کا درس اشتہار میں اس لیے نہیں دیا جاسکتا ہے کہ تنخواہ وہ ویری ایبل ہے جو پرافٹ فیکٹر میں سب سے زیادہ کاؤنٹ ہوتا ہے۔ تنخواہ کم ہوگی تو منافع زیادہ ہوگا۔ اس منافع پہ جو ٹیکس لگے گا اس پر اگر خیرات کی رقم دکھائی دی جائے تو ٹیکس میں اچھی خاصی چھوٹ  مل جائے گی۔ 
اس پر انقلاب ثور کے روح رواں اور  افغانستان کے سماج وادی رہنما نور محمد ترکئی کے ایک ناول کا سیکونس یاد آ تا ہے جس میں ایک بڑا جاگیردار مولانا صاحب کے فتویٰ پر غریبوں کو کھانا کھلا کر زکوۃ کی رقم بچا لیتا ہے۔
جس اشتہار کی ہم بات  کر رہے ہیں اس کے پلاٹ کی اس جہت کو دیکھنے کی ضرورت ہے جو سرمایہ دارانہ بیانیہ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ سیٹھ تنخواہ بڑھانے کی طرف کم ہی مائل ہوتا ہے، وہ خیرات کرنے اور کروانے کو زیادہ افضل عمل سمجھتا ہے۔ بہت سے سیٹھ تو ایسے بھی ہیں جو ملازمین کو تنخواہیں دینے کی بجائے انہیں موٹیویشنل لیکچرز دلوانے لگتے ہیں تاکہ ان کی پرڈکٹ ابیلٹی بہتر ہو۔

 

موٹیویشنل سپیکر بڑی رقم اینٹھ کر ملازمین کو یہ بتاتے ہیں کہ مسئلہ ایمپلائمنٹ پالیسی میں یا پھر تنخواہ میں نہیں بلکہ ملازمین کے اندر ہے جو اپنا کام ٹھیک طور پر نہیں کر پاتے اور سست روی کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے وہ آگے نہیں بڑھ پاتے لہذا اپنے آپ کو ٹھیک کریں وغیرہ وغیرہ۔ 
اس اشتہار کو بھی موٹییویشنل کہہ کر سراہا جا رہے۔ اسے جو پذائرئی مل رہی ہے اس سے یہ باآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ ہم کس حد تک سطحی سوچ کے حامل ہیں۔ ہم اپنے مسائل کے  حقیقی حل کا ادارک کرنے کی طرف مائل نہیں۔ بلکہ ہم خیرات اور لنگر کا چلن عام ہونے پر راضی ہونے والے لوگ ہیں۔ ہم اہنے کرداروں کی کہانی کسی دوسرے زاویے سے دیکھنے کی کوشش نہیں کر رہے کیونکہ وہ تھوڑا مشکل کام معلوم ہوتی ہے۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: