جب سوشل میڈیا پر پہلی دفعہ وزیراعظم صاحب کی ماڈل لنگر خانہ والی تصویر دیکھی تو میں نے ہنسی والی ایموجی بھیج دی۔ ایک دفعہ بھی گمان نہیں ہوا کہ حقیقت میں ایسا ہو سکتا ہے۔ سوچا کسی نے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے کوئی تصویر فوٹو شاپ کر کے سوشل میڈیا پر ڈال دی ہو گی لیکن تھوڑی ہی دیر میں آن لائن اخبارات کی مصدقہ خبریں نظروں سے گزرنے لگیں تو حیرت کے ساتھ ساتھ بے حد غصہ بھی آیا۔
مزید پڑھیں
-
لفظ تماشا: کچکول سے کشکول تک کی کہانیNode ID: 436616
-
ایک بات پوچھوں، کھاؤ گے تو نہیں؟Node ID: 436646
-
یہ بے گھر کب اڑ جائیں، خبر نہیںNode ID: 437081
جب اخبار کی خبر پڑھی کہ حکومت سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے ساتھ مل کر ملک میں لنگر خانے کھولنے جا رہی ہے تو ایسے لگا جیسے کسی نے میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کرمجھ سے کہا ہو کہ لنگر خانہ کھل گیا ہے جب بھوک لگے آ جانا۔ ان الفاظ سے عزت نفس کو کیسی ٹھیس پہنچی، اس کا اظہار لفظ نہیں کر سکتے۔ آخر غریب آدمی کے پاس عزت نفس کے سوا ہوتا ہی کیا ہے۔ اگر وہ بھی تضحیک کا نشانہ بن جائے تو کس قدر اذیت ہوتی ہے اس کو سمجھنے کے لیے دل چاہیے۔
لنگر خانے سے کھانا کھانا معیوب نہیں لیکن اگر حکومت لوگوں کو روزگار دینے کے بجائے لنگرخانے کھولنے کا اعلان کر دے تویہ ایسے ہی ہے جیسے کسی روزگار مانگے والے کے منہ پر تھپڑ مار کر کہا جائے، یہ لو اپنے لیے دو وقت کی روٹی اور اپنا منہ بند رکھو۔
جب کوئی حکومت سے روزگار مانگتا ہے تو صرف اپنے لیے نہیں مانگتا، اس کے خاندان میں والدین، بہن، بھائی، بیوی بچے بھی ہوتے ہیں جن کے لیے اسے روٹی کمانا ہوتی ہے۔ اور روٹی کا مطلب صرف روٹی نہیں ہے۔ سر پر چھت بھی چاہیے اور بدن پر کپڑے بھی۔
وزیراعظم عمران خان صاحب سے عاجزانہ سا سوال یہ ہے، کیا یہ لنگر خانے چھت اور کپڑے بھی مہیا کریں گے؟ اگر نہیں تو وہ ضرورتیں کیسے پوری ہوں گی؟ چند لوگوں کے پیٹ میں دو وقت کی روٹی تو چلی جائے گی شاید، لیکن زندہ رہنے کے لیے ہر دن سر پر چھت بھی چاہیے اور بدن ڈھاپنے کے لیے کپڑے بھی اور خدانخواستہ بیمار پڑ گئے تو دوا دارو الگ۔ تعلیم کو توچلو ایک طرف رکھ دیتے ہیں شاید وہ صرف زندہ رہنے کے لیے اتنی اہم نہیں۔ کیا آپ نے اس بارے میں بھی کوئی پلان ترتیب دیا ہے؟
وزیراعظم صاحب دنیا کی بہت مثالیں دیتے ہیں، ماڈل لنگر خانے کا افتتاح کرتے ہوئے کسی ایسے ملک کی مثال بھی دے دیتے جہاں حکومت لوگوں کو روزگار دینے کے بجائے ان کے لیے لنگر خانے کھولتی ہو، تاکہ ہمارے دل کو بھی تسلی ہو جاتی کہ دنیا میں صرف ہم ہی بدنصیب نہیں ہیں جو روزی کما کر کھانا چاہتے ہیں لیکن ہماری اس خود داری کی کوئی وقعت نہیں۔
خان صاحب نے اپنی 20، 22 سالہ سیاسی جدوجہد کے دوران ایک دفعہ بھی یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ ہماری حکومت آئے گی تو ہم آپ کے لیے لنگرخانے کھولیں گے۔ اس کے علاوہ باقی سب وعدے کیے۔ جیسے کہ تعلیم اور علاج سستے ہوں گے۔ بے گھروں کو گھر ملیں گے۔ بے روزگاروں کو روزگار ملے گا، مہنگائی ختم ہو گی وغیرو وغیرہ۔ جو وعدے کیے تھے وہ تو وفا نہیں ہوئے البتہ جو وعدہ تھا ہی نہیں اسکی تکمیل میں ذرا دیر نہیں لگائی۔ کاش یہ نعرہ الیکشن کمپین کے دوران بھی لگایا ہوتا کہ ہم آپ کی بھوک مٹانے کے لیے لنگر خانے کھولیں گے تاکہ لوگوں کو پہلے سے ہی آپ کے ویژن کا ادراک ہو جاتا۔
لنگرخانہ کھولنا کوئی بری بات نہیں۔ لیکن یہ کام یا تو وہ لوگ کرتے ہیں جوصاحب استطاعت ہوں یا پھر وہ جنہیں اپنا کالا دھن سفید کرنا ہو۔ حکومتیں تو الیکشن کے دوران کیے گئے جھوٹے سچے وعدوں کو کسی حد تک پورا کرنے کی کوششیں کرتی ہیں لیکن ہمیں وزیراعظم صاحب کی طرف سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ عوام بے صبری ہے۔ جناب! جب گھر میں بچے بھوکے پیٹ سوئیں اور بدلتے موسم کے مطابق پہننے کو کپڑے نہ ہوں تو صبر کیسے آتا ہے اس کی رہنمائی آپ ہی کر دیں تو اچھا ہے۔ ایک سادہ اورعامیانہ ذہنیت کا انسان تو اس کا جواب ڈھونڈنے سے قاصرہے۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں