طلبہ نے شکوہ کیا ہے کہ انہیں سرکاری ہاسٹلز میں رہائش نہیں دی جاتی، فوٹو: فیس بک
اسلام آباد میں رہائش کا بندوبست کرنا آسان نہیں تاہم یہ مزید مشکل اس وقت ہو جاتا ہے جب یہ کام طالب علموں کو کرنا پڑے کیونکہ بیشتر نجی تعلیمی اداروں میں ہوسٹلز نہیں اور سرکاری اداروں میں ہیں بھی تو ان میں گنجائش کم ہے۔
طلبہ کو باہر نجی ہاسٹلز میں رہنا پڑتا ہے اور مشترکہ فلیٹ یا کمرے وغیرہ کرائے پر لینا پڑتے ہیں، تاہم اب انہیں وہاں سے بھی بے دخل کیا جا رہا ہے جس پر طلبہ میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔
اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں رہائش پذیر ایسے طالب علموں کے خلاف پولیس نے آپریشن کیا جس پر طلبہ کی جانب سے احتجاج کیا گیا، اس احتجاج کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔
اس حوالے سے جب اردو نیوز نے طلبہ سے رابطہ کیا تو دانیال عبداللہ نامی طالب علم کا کہنا تھا کہ میں یونیورسٹی میں تھا جب دوست نے فون کر کے بلایا جب وہاں پہنچا تو گھر کے سامنے پولیس موجود تھی اور میرے ساتھیوں کو فوری طور پر گھر خالی کرنے کا کہا جا رہا تھا۔
وجہ پوچھنے پر پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ رہائشی علاقوں میں طلبہ کا رہنا غیر قانونی ہے، آپ کو سی ڈی اے کا نوٹس بھی بھجوایا گیا تھا، جس پر پولیس کو بتایا کہ ہم نے اس کا سی ڈی اے سے پتا کروایا ہے۔
ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ صرف ایک شکایت ہے جس پر معاملہ ختم ہو گیا، مگر پولیس اہلکار بضد رہے جس پر ہمیں احتجاج کرنا پڑا اور پھر دوسرے طلبہ بھی اس میں شامل ہو گئے۔
دانیال عبداللہ کا مزید کہنا تھا کہ اس موقع پر جب اسسٹنٹ کمشنر صدر زون گوہر زمان وہاں پہنچے تو ہم نے ان سے پوچھا کہ ہم کہاں رہیں، کہاں جائیں؟
اس کے جواب میں اسسٹنٹ کمشنر کا کہنا تھا کہ ’آپ کو اتوار تک کی مہلت دیتے ہیں، اس سے پہلے پہلے گھر خالی کر دیں۔‘
’طلبہ رہائشی علاقوں میں نہیں رہ سکتے، کمرشل ایریا میں جا کر رہیں، اگر وہاں کا کرایہ برداشت نہیں کر سکتے تو یونیورسٹیوں میں داخلے مت لیں۔‘
ایک اور طالب علم حسان کا کہنا تھا کہ ہم دور دراز علاقوں سے یہاں پڑھنے آئے ہیں لیکن یونیورسٹی ہاسٹلز میں ہمیں کمرہ نہیں دیا گیا۔
’انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ابھی گنجائش نہیں ہے یا تو یونیورسٹیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ہمیں رہنے کے لیے جگہ دیں یا پھر ہمیں یہیں رہنے دیا جائے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کمرشل علاقوں میں کیوں نہیں رہتے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ میں اس سے قبل کمرشل ایریا میں فلیٹ لینے کی کوشش کر چکا ہوں مگر وہاں طلبہ کو کرائے پر فلیٹ دیے ہی نہیں جاتے، صرف فیملیز کو دیے جاتے ہیں۔
’دوسرا وہ علاقے مہنگے بھی بہت ہیں، اسی لیے میں نے یہاں کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر گھر کا ایک حصہ کرائے پر لیا، ہم کہاں رہیں، طالب علم ہیں تو کیا ہمارے لیے کوئی چھت نہیں۔‘
سوشل میڈیا پر بحث چھڑنے کے بعد ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے اپنی ٹویٹ میں موقف دیتے ہوئے کہا کہ ’اس معاملے کا نوٹس لے لیا گیا ہے تاکہ طالب علم مطمئن ہو سکیں جبکہ قانونی طور پر اس کی گنجائش نہیں کہ کسی گھر، فلیٹ،اپارٹمنٹ یا پلازہ کو ہاسٹل بنایا جائے۔‘
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ طلبہ کو رہائشی علاقوں میں رہنے نہیں دیا جا رہا جبکہ دوسری جانب یونیورسٹی ہاسٹلز بھی اس قابل نہیں کہ طلبہ کو رکھ سکیں جس پر ایک نیا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔
چونکہ اسلام آباد کے تمام سیکٹرز کے رہائشی علاقوں میں ہاسٹلز بنانے پر پابندی ہے اس لیے نجی ہاسٹلز کی تعداد بہت کم ہے اور دوسرا وہ کمرشل ایریاز میں ہوتے ہیں اس لیے ان کے کرائے بہت زیادہ ہوتے ہیں، اسی وجہ سے طلبہ نے کرائے کے گھروں میں رہائش اختیار کر رکھی ہے.
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں