شاہزادی کی تعریف میں کہا جارہا ہے کہ اس نے مشرقی روایات کا احترام کیا۔ فوٹو:اے ایف پی
برسات کو ہمارے ہاں کی شاعری میں وہی رتبہ حاصل ہے جو گلاب جامن کو مٹھائیوں میں اور آم کو پھلوں میں۔ اس تشبیہہ کے لیے معذرت لیکن درگزر کیجیے گا کہ خالی پیٹ یہی کچھ سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
ہمارے ایک بھتیجے میاں جو کھانے سے بہت رغبت رکھتے ہیں سمندر کی تصویریں بہت پسند کرتے تھے کہ پانی میں مچھلی ہوتی ہے جو انہیں تلی ہوئی بہت پسند تھی۔ خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ گاڑی کا رخ برسات کی طرف واپس موڑیے۔ برسات کا رومان ہمیشہ سے شعرا اور عوام کے ذہنوں پر سوار رہا ہے۔ یوں تو بارش ٹھنڈی ہوتی ہے لیکن اس کے ہوتے ہی دل کی دنیا اتھل پتھل ہو جاتی ہے۔ ہر کسی کا جی چاہتا ہے کہ کوئی چاہنے والا ہو جس کے ساتھ جل تھل کی ترنگ محسوس کی جائے۔
حقیقی زندگی کچھ مختلف ہے تو یوں ہو نہیں پاتا۔ سجنا کی ’دو ٹکیا دی نوکری‘ سے لاکھوں کا ساون جاتا رہتا ہے۔ بہت اچھے، آپ نے گانا بوجھ لیا۔
مجبوری چیز ہی ایسی ہے۔ اگر یہی مجبوری روزگار کی ہو تو مسائل اور بڑھ جاتے ہیں۔ زنجیریں اور پختہ ہو جاتی ہیں۔ ہتھکڑیاں توڑنا مزید دشوار ہو جاتا ہے۔ جس مجبوری کی وجہ سے انسان ساون کو نہ جی پائے وہاں ہم کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔
اس وقت ہماری حالت بھی اسی ساجن کی سی ہے جو نوکری کے باعث سجنی کے ساتھ لاکھوں کا ساون نہیں محسوس کر پاتا۔ بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن لبوں کو بھینچ رہے ہیں۔ گالوں کی اندرونی جلد کو دانتوں میں کچلے جا رہے ہیں۔ فیض صاحب نے تو کہا تھا ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔‘ غلط کہا تھا۔ شاید فیض صاحب کے وقت کا پاکستان مختلف تھا۔ بات کٹنے پر زبان نہ کٹتی تھی۔ بس جلاوطنی ہو جاتی تھی۔ شاید فیض صاحب نے کبھی روزگار کی بندشیں بھی نہ سہی ہوں۔ ہمیں کیا پتہ۔ ہم نے کچھ اپنی آنکھ سے کہاں دیکھ رکھا ہے۔
خیر جان کی امان پائیں تو عرض کرتے ہیں کہ پاکستان میں خوشیاں یوں تو بہت کم ملتی ہیں۔ ہمیں زیادہ تر یا تو کسی کے حراست میں جان دے دینے کی خبر ملتی ہے یا چینی کی قیمت بڑھنے کی۔ ایسے میں ایک نازک اندام شاہزادی اور ہمالیہ سے اونچے شاہزادے کی ہمارے ہاں آمد کسی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔ ہمارا بس نہیں چلتا کہ شاہزادی کے صدقے واری جائیں کہ جو عزت اس نے شلوار قمیض کو بخشی وہ آج تک ہمارے ہاں عنقا تھی۔
ہم نے اسی نشے میں ان کی پردادی ساس کی حکومت بھی بھلا دی جس میں برصغیر پاک و ہند کو اس شاہی شان و شوکت سے لوٹا گیا تھا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا سسرالی عجائب گھر تمام مقبوضہ اقوام سے اکٹھے کیے گئے نوادرات کا اچار ہے۔ اگر آپ کو بھی موقع ملے تو جا کر تاریخ کا وہ دورہ کیجیے گا جو کتابوں میں رقم کرنا ممکن نہیں۔
گوری چمڑی پر دل ہار دینا ہماری پرانی عادت ہے۔ اس لیے ہم بھی اس دورے کے اول ناقدین میں شامل تھے۔ اس بات پر خوب خون کھول رہا تھا کہ ان کی مدح میں اپنے ملک کی خواتین کو کیوں ذلیل کیا جا رہا ہے۔
شاہزادی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں کہ اس نے مشرقی روایات کا احترام کیا۔ جب ہماری ملالہ پتلون پہن لے تو اسی وقت قومی حمیت کا جنازہ اسی دھوم سے نکلتا ہے جس سے محبت کا۔ گلہ شاہزادی سے نہیں لیکن اپنے دوغلے اور بدبودار رویے سے تھا۔
لیکن حال ہی میں کچھ ایسا ہوا کہ ہمارا جی چاہا کہ ہم بھی شاہی جوڑے کے صدقے واری جائیں۔ یہی شاہی جوڑا بادشاہی مسجد کی طرف رواں دواں ہوا کہ تمام مذہبی راہنماؤں کے ساتھ مذہبی رواداری پر بات چیت کی جائے۔ ان جید علمائے کرام سے سیکھا جائے کہ وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں میں کس طرح مذہبی رواداری کو فروغ دیتے ہیں۔
یہ خبر پڑھ کر بھی کچھ ہنسی نکل آئی کہ ہمارے ہاں تو مسلمانوں میں ہی کفر کے کئی مدارج ہیں۔ کسی کو اسلام علیکم پر ہی تین سال کی جیل ہے۔ کسی پر بھی بغیر تحقیق کے کسی گستاخی کا الزام لگانے میں کوئی ٹینشن نہیں۔ بستیاں جلا دی جاتی ہیں۔ ہندو لڑکیوں کا جبری نکاح پڑھوا دیا جاتا ہیں۔ محض شک کی بنیاد پر مشال خان کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔ یہ رواداری شواداری ہم نہیں مانتے۔ آپ یہ والا کھیل انگلینڈ میں کھیلا کیجیے۔ لیکن مہمان بھی تھے اور ہماری سنتے بھی نہیں تھے۔
شاہزادی ہرے رنگ کے ریشمی لباس میں ملبوس تھی اور شفون کا ہرا دوپٹہ سر پر یوں ٹکائے بیٹھے تھی جیسے شروع سے لیتی آئی ہو۔
بادشاہی مسجد کے مرکزی ہال میں قرآن کی تلاوت شروع ہوئی تو یہ جوڑا یوں ہی بیٹھا تھا جیسے کوئی راسخ العقیدہ مسلمان اللہ کے بول اپنے دل میں انڈیل رہا ہو۔ زمین پر عاجزی سے بیٹھا یہ شاہی جوڑا ہمیں سوچنے پر مجبور کر گیا کہ ان کے ملک میں مستقبل کے ملکہ اور بادشاہ (جو کل کو چرچ آف انگلینڈ کے سپریم گورنر بھی ہوں گے) کی اسلام کے شعائر کی اس عزت پر کیا قیامت آئی ہو گی۔ ہر طرف ان کے عقائد کی کمزوری پر ریلیاں نکلنا شروع ہو گئی ہوں گی۔ عجیب بات ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ان کا یسوع مسیح پر ایمان یوں ہی قائم رہا۔ ان کے دامن پر کوئی چھینٹ نہیں لگی۔
واضح رہے کہ برطانوی شاہی خاندان اس حد تک کٹر ہے کہ ایک زمانے میں اپنے فرقے سے باہر شادی بھی نہیں کرتے تھے۔ ان ہی کی ایک دیورانی کیتھولک ہے۔ جب تک انہیں چرچ آف انگلینڈ کا ممبر نہیں بنا لیا گیا شادی نہیں ہوئی۔
جب تمام لوگوں کو شاہزادی کے شلوار قمیض اور دوپٹے میں اپنے ہاں کی عورتوں کے لباس یاد آ جاتے ہیں تو ہمارے ذہن میں بھی کئی طرح کی حسرتیں کلبلانے لگیں۔ کیا ہمارے ہاں کے کسی لیڈر کو کبھی بھی یہ موقع مل پائے گا کہ وہ برطانیہ جا کر کسی چرچ میں سروس میں اسی ادب سے شامل ہو سکیں؟ ان کی عبادت گاہوں میں انہی کی طرح بیٹھ سکیں؟ کیا پاکستان میں بسے ہندوؤں کے تہواروں میں شامل ہونے والے سیاسی راہنما ہمیشہ ہی کفر کی بندوق کا نشانہ بنتے رہیں گے؟ کیا چرچ جانے پر ہمیشہ کفر کے فتوے ہی آتے رہیں گے؟ کیا کبھی کسی عام غیر مسلم کو یہ اجازت ہو گی کہ اس کو بھی اسی عزت اور مان سے مسجد میں قرآن سنایا جائے؟
ہم تین سال دبئی میں بھی مقیم رہے ہیں جہاں شرعی نظام نافذ ہے۔ لیکن وہاں بھی تمام مذاہب کی ہم آہنگی دیکھ کر احساس ہوا کہ یہ تنگ نظری ہمارا ہی خاصہ ہے۔ دیوالی پر پورا دبئی روشنیوں سے جگمگا اٹھتا تھا۔ کرسمس سب کے لیے خوشی کا تہوار ہوتی تھی۔ تمام مال کرسمس ڈیلز کا اعلان کرتے تھے۔ کرسمس ٹری اور سانتا کلاز ہر طرف خوشیاں بکھیرتے دکھائی دیتے تھے۔ بیسن کا لڈو ہندو یا کرسمس کیک عیسائی نہیں تھا۔ کسی آدمی کا ایمان کسی عورت کے ننگے سر یا جینز سے متزلزل نہیں ہوتا تھا۔ سب صرف اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔
قائد اعظم محمد علی جناح تو وقت سے چلے گئے۔ زندہ رہتے تو دیکھتے کہ اس طرح ان کی وہ تقریر، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آپ سب اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، کو سنی ان سنی کر دیا ہے۔ اب سب اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد تو ہیں لیکن اپنے رسک پر۔ سواری اپنے سامان کی خود حفاظت کرے ورنہ عملہ ذمہ دار نہ ہو گا۔
اگر شہزادی کے شلوار قمیض پر آپ کو اپنے ملک کی تمام عورتیں بد کردار اور بے حیا لگنے لگی ہیں تو ذرا اسی شہزادی اور شہزادی کے مسجد میں اسلامی روایات کا احترام کرنے پر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیے گا۔ بدبو آئے تو ناک پر کپڑا رکھ دیجئے گا کہ تعفن سے طبیعت خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
او مائی گاڈ، یہ ہم کیا کچھ کہہ گئے؟ اوہ نو۔۔۔
بک رہا ہو جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
تلخ کلامی کی معذرت قبول کیجیے۔ ہم جذبات میں بہک گئے۔ یہ کالم پڑھ کر ڈیلیٹ کر دیجیے گا۔