کسی کو شادی کا مشورہ تو کسی کو بچے پیدا کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ فوٹو: ان سپلیش
ہماری تمام سہیلیوں کی شادی نہیں ہوئی۔ سچ پوچھیے تو جن کی شادی ہو چکی یہ سہیلیاں ان سے کہیں بہتر زندگی گزار رہی ہیں۔ اب ہماری سہیلی ف کی ہی مثال لیجیے۔ اپنا کماتی ہے، اپنا کھاتی ہے۔ دنیا گھومتی ہے۔ جو جی میں آئے پہنتی ہے۔ جہاں جی چاہے جاتی ہے۔ ٹی وی اور اے سی کا ریموٹ بھی اپنے ہاتھ میں ہی رکھتی ہے۔
ہماری شادی ہو گئی لیکن بچے نہیں ہیں۔ ان سہیلیوں سی سہل زندگی تو نہیں لیکن ان سے کئی گنا بہتر ہے جن کی زندگی بہت سے غموں کا مجموعہ ہے۔ جہاں جی چاہے جاتے ہیں۔ جو جی چاہے پہنتے ہیں۔ بہت سی باتوں میں کسی کو جوابدہ ہیں لیکن کسی کے سکول جانے اور فیڈر پینے کے وقت کے محتاج نہیں۔
ہماری ایک سہیلی ن ایسی بھی ہے کہ جس کی شادی بھی ہو چکی اور دو بیٹیاں بھی ہیں۔ بظاہر تو زمانے کے مروجہ اصولوں کے مطابق سنسکاری زندگی گزار رہی ہے۔ بچیوں کی پونیاں بناتی ہے۔ انہیں سجاتی بناتی ہے۔ روز دادا دادی کے پاس کھیلنے کو چھوڑتی ہے۔ میاں کے کپڑے بھی استری کرتی ہے اور بچیوں کو وقت پر سکول بھی روانہ کرتی ہے۔
اگر آپ ہم جتنے ہی قدیم ہوں تو اخبار جہاں نامی رسالے میں آنے والے کہانیوں کے سلسلے ’تین عورتیں، تین کہانیاں‘ سے خوب واقف ہوں گے۔ خدا کی قسم ہمارے ذہن میں ابھی یہی خیال آیا ہے۔ کہنے کو تین عورتوں کی تین مختلف کہانیاں ہیں لیکن مرکزی خیال سب کا ایک سا ہے۔ جس نے معاشرے سے ٹکر لی اور جس نے معاشرے کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ان سب کے ساتھ ایسا کیا مختلف رویہ روا رکھا گیا؟
ہم تینوں کو ایک ہی بات سننے کو ملتی ہے، بس الفاظ مختلف ہیں۔ ماخذ ایک ہی سمجھیے۔ کسی کو شادی کا مشورہ تو کسی کو بچے پیدا کرنے کی تلقین، جس نے یہ سب بھی کر لیا اسے مزید بچے پیدا کرنے کی ہدایت ہے کہ شاید خدا اس بار 'مہربان' ہو جائے۔ شاید اس بار اولاد نرینہ ملے جو ماں باپ کا سہارا بنے۔
گھما پھرا کر ایک ہی بات ہے کہ شادی ہو، بیٹے ہوں تاکہ بڑھاپا سہل گزرے۔ سچ مانیے تو سب اپنی زندگیوں میں بہت خوش ہیں۔ کسی تبدیلی کے متمنی نہیں۔ یہ لیکچر سن کر خون چائے کی طرح ابلنے لگتا ہے۔ ہم تینوں کا جی چاہتا ہے کہ ان خیر خواہوں کو خوب کھری کھری سنائیں۔ ان کو ان کا دھندلا عدسہ اتار کر حقیقی دنیا دکھائیں۔
لیکن ہم بس زبان کے ٹیڑھے ہیں۔ دل کے اچھے ہیں۔ خیال آتا ہے کہ قصور ان کا بھی نہیں۔ انہوں نے ان معاشی خود مختار عورتوں کی دنیا میں کبھی قدم رکھا ہی نہیں۔ بڑھاپے کا اکلاپا اور تکلیف ان کو زیادہ محسوس ہونا جائز ہے کہ ہمارے ہاں بوڑھوں کی زندگی ایسی ہی ہے۔
تمام زندگی بچوں اور گھر والوں کے لیے جینے کے بعد جب بڑھاپا آتا ہے تو وہ جوانی سے زیادہ دردناک ہوتا ہے۔ ہزار طرح کی بیماریاں لگ چکی ہوتی ہیں جن میں عمر سے زیادہ قصور اس دماغی ٹینشن کا ہے جو ہمیں تمام عمر ملتی ہے۔ قربانی دینا انسان کا فرض ہے۔ اس لیے کتنے لوگ زندگی جی پاتے ہیں واللہ اعلم۔
بلکہ یوں کہیے کہ بڑھاپے میں یہ زندگی مزید ابتر ہو جاتی ہے کہ ذمہ داریاں ختم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جاتی ہیں۔ کسی کو بچوں کی شادیوں کی فکر ہے تو کسی کو اس بات کی فکر کھائے جا رہی ہے کہ علاج معالجے کا خرچہ پورا کریں یا گھر کا راشن۔
ہم نے اس بات کو مسلمہ حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ بڑھاپا ایک اذیت کا نام ہے جس میں انسان معاشی اور جسمانی دونوں لحاظ سے لاچار اور کمزور ہوتا ہے۔ باقی ماندہ زندگی کے دن تب ہی سکھ سے گزریں گے اگر سرہانے چار بیٹے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں گے۔
اولاد پیدا کرنے کا سب سے بڑا محرک بھی یہی کم بخت بڑھاپا ہے کہ اپنی سیوا کے لیے نئے انسان دنیا میں لائے جائیں جن کی جوانی اپنے بڑھاپے کی نذر کر دی جائے۔ یہ اور بات ہے کہ جن سے یہ سب امیدیں لگائی جائیں وہی دغا دے جاتے ہیں۔ یہ اونٹ کسی کل سیدھا نہیں بیٹھتا۔ فرمانبردار اولاد اپنی جوانی تیاگ بیٹھتی ہے۔ نافرمان اولاد اپنی آخرت گنوا بیٹھتی ہے۔ انسان جائے تو جائے کہاں؟
شاید ہمارے منہ میں زیادہ لمبی زبان آنے کی وجہ مغرب کا ’بے حیا‘ معاشرہ بھی ہے۔ ہم نے یہ دیکھ لیا ہے کہ بڑھاپا تو زندگی کی نئی رمق جینے کا نام ہے۔ انسان کی اصل زندگی ریٹائرمنٹ کے بعد شروع ہوتی ہے کہ ذمہ داریوں سے آزادی تب ہی ملتی ہے۔
سچ پوچھیے تو یہاں کئی بوڑھے جوانوں سے زیادہ بھرپور زندگی گزارتے ہیں۔ معاشی اور معاشرتی فکروں سے آزاد ہیں اس لیے کھل کر زندگی جیتے ہیں، دنیا گھومتے ہیں۔ نت نئے اشغال اپناتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی صحت بھی ہمارے بوڑھوں سے بہتر ہوتی ہے۔ نہ تو ان کی زندگی ہر کسی کی فکر میں گزری ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے ذہن میں کسی پر انحصار کی سوچ ہوتی ہے۔
سب کو معلوم ہے کہ اپنے آپ کو ہمیشہ خود ہی سنبھالنا ہے اس لیے صحت کا دھیان بھی شروع ہی سے رکھتے ہیں۔ نت نئی دوستیاں بناتے ہیں اور زندگی کو نئے سرے سے جیتے ہیں۔
یعنی مسئلہ بڑھاپے کا نہیں ہماری لوکیشن کا ہے۔ ہماری جوانی بھی انہی قدغنوں میں گزری اور خیر خواہوں کی فکر جائز ہے کہ بڑھاپا بھی اس سے بڑھ کر خوار ہوگا۔ جہاں جوان لوگ اپنی مرضی سے کہیں آ جا نہ سکیں وہاں بوڑھوں کی کیا زندگی ہوگی؟ جہاں ہر خوشی پر 'لوگ کیا کہیں گے' کا پہرہ لگا ہو وہاں بڑھاپا واقعی عفریت ہے۔
لیکن صاحب، خدا کی زمین بہت وسیع ہے۔ ہم لوکیشن بدل لیں گے۔ یہاں بڑھاپے کے سگنل بہتر ہیں۔ پاکستان سے باہر مقیم بہت سے لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ بڑھاپا پاکستان میں ہی گزاریں گے۔ ہمارا خیال ہے کہ زندگی جئیں گے اور سہیلیوں کو یہیں بلا لیں گے۔ لال لپ سٹک لگا کر ورلڈ ٹور پر جائیں گے۔ ف اور ن کے ساتھ کیمپنگ پر چلیں گے۔ بس ڈن ہو گیا۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں