Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلیک لسٹ کا خطرہ کیوں نہیں ٹل رہا؟

ماہرین کے مطابق بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے پاکستان کو امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس نے گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف متعدد اقدامات کیے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو تنبیہ جاری کی ہے کہ فروری تک مزید اقدامات نہ کرنے کی صورت میں ملک کا نام بلیک لسٹ میں ڈالا جا سکتا ہے؟
پاکستان کی جانب سے دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے خلاف کام کرنے والے سابق سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ گو پاکستان کو چند مزید اقدامات کی ضرورت ہے مگر ایف اے ٹی ایف کے عدم اطمینان کی سیاسی اور سفارتی وجوہات بھی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے پاکستان کو امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے اور سفارتی میدان میں زیادہ دوست بنانے ہوں گے۔

’پاکستان کے لیے گول پوسٹ بدل جاتی ہے‘

دہشت گردی سے نمٹنے والے قومی ادارے نیکٹا کے سابق سربراہ احسان غنی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی رائے میں ایف اے ٹی ایف اور زیادہ تر بین الاقوامی ریگولیٹری اتھارٹیز میں سیاسی عنصر نمایاں ہوتا ہے۔
’جب ہم کچھ اہداف حاصل کر لیتے ہیں تو گول پوسٹ بدل دی جاتی ہے اور پیمانہ تبدیل کر دیا جاتا ہے۔‘

ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کے اقدامات پر تسلی کا اظہار نہیں کیا۔ فوٹو اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکام اور ایف اے ٹی ایف کے درمیان رابطے کا بحران بھی ہے کیونکہ یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان جیسے بڑے ملک میں کسی دور دراز علاقے میں اگر کوئی چندہ اکھٹا کر لیتا ہے تو بعض اوقات حکومت کو اس کا علم نہیں ہو پاتا اور اسے روکنا خاصا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ بات نہ ہم سمجھا پا رہے ہیں نا وہ سمجھنا چاہ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کو شکایت تھی کہ دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کے سلسلے میں پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں رابطے کا فقدان ہے۔ ’اس شکایت کو دور کرنے کے لیے میں نے اپنے دور میں ایک ٹاسک فورس بنائی تھی تاکہ سب ادارے مل کر دہشت گردی کے لیے پیسوں کی ترسیل کا راستہ روکیں۔ اس ٹاسک فورس میں ایف آئی اے، آئی بی، وزارت مذہبی امور، صوبائی ادارے، مذہبی ادارے ، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ اور ایف بی آر سب شامل تھے۔‘
ان کے مطابق ’ہر ماہ ان تمام اداروں کا اجلاس ہوتا تھا اور دہشت گردی کی معاونت کے اقدامات کا تذکرہ ہوتا تھا تاہم اس کے بعد میرا ارادہ تھا کہ ایک دفتر میں ان تمام اداروں کے نمائندے بیٹھا کریں جو کہ پورا نہ ہو سکا اور اب تک یہ اقدام مکمل نہیں ہوا۔

پولیس، استغاثہ اور عدلیہ میں صلاحیت کا فقدان

نیکٹا کے سابق سربراہ نے تسلیم کیا کہ پاکستان میں مالیاتی امور کی تفتیش کی مکمل مہارت اور صلاحیت نہ پولیس کے پاس ہے، نہ استغاثہ کے پاس اور نہ ہی عدلیہ کے پاس۔ اس سلسلے میں مہارت میں وقت درکار ہے مگر ایف اے ٹی ایف کا مطالبہ ہوتا ہے کہ مالیاتی جرائم میں ملوث افراد نہ صرف پکڑے جائیں بلکہ ان پر مضبوط کیس چلائے جائیں اور پھر ان کو سزائیں بھی ملیں۔

سابق سیکرٹری خزانہ کے مطابق سیاسی قیادت کو ملک کے لیے نئے عہدو پیمان کرنا ہوں گے۔ فوٹو: رؤئٹرز

سابق سیکرٹری خزانہ وقار مسعود جو کہ ایف اے ٹی ایف کے معاملات دیکھتے رہیں ہیں وہ احسان غنی سے متفق نظر آتے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صلاحیت کی کمی کا یہ عالم ہے کہ گذشتہ عرصے میں سٹیٹ بینک نے متعدد بینکوں کو تقریبا ایک ارب کے جرمانے اس لیے کیے کہ وہ مشکوک مالی ترسیلات کی صحیح رپورٹنگ کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اسی طرح پولیس اور حتی کہ نیب کی تربیت بھی نہیں کہ وہ پیچیدہ مالی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف ایسی تفتیش کر سکیں جو سزاؤں پر منتج ہوں۔

قانون سازی کے لیے سیاسی قیادت کا اتفاق  درکار

سابق سیکرٹری خزانہ کے مطابق ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر مکمل عمل کے لیے کسٹم اتھارٹی، ہاؤسنگ سیکٹر اتھارٹی وغیرہ کی طرز پر کئی ادارے بنانے پڑیں گے جس کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی قیادت کو ملک کے لیے نئے عہدو پیمان کرنا ہوں گے تاکہ مل کر ایسی قانون سازی ہو سکے ورنہ اکیلی حکومت کے لیے یہ کام ممکن نہیں ہو گا۔
ان کے بقول ’جہاں جہاں بڑی رقوم کا لین دین ہوتا ہے، چاہے وہ سونے کا کاروبار ہو یا پراپرٹی کا اسے ریگولیٹ کرنا اب ضروری ہو گیا ہے تاکہ منی لانڈرنگ کا شک نہ رہے۔‘

’امریکہ سے تعلقات بہتر کرنا ہوں گے‘

وقار مسعود کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کچھ مشکلات بین الاقوامی سیاست کا بھی نتیجہ ہیں۔ جس انداز میں چین سے تعلق رکھنے والے ایف اے ٹی ایف کے صدر نے باتیں کی ہیں وہ خوشگوار نہیں تھا۔

ایف اے ٹی ایف نے کہا کہ پاکستان مقررہ وقت تک اس کے ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہا۔ فوٹو: رؤئٹرز

اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان نے حالیہ دنوں میں امریکہ سے اتنی پینگیں بڑھائیں مگر اس کا کیا فائدہ ہوا؟ 
انہوں نے کہا کہ انڈیا جس انداز سے دنیا میں اثرو رسوخ بنا رہا ہے اس سے پاکستان کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر مزید دوست بنانے ہوں گے اور امریکہ سے تعلقات بھی بہتر کرنے ہوں گے۔

بلیک لسٹ کی نوبت شاید نہ آئے

ماہر معیشت اور اسلام آباد کے تھنک ٹینک ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد قیوم سلہری کا خیال ہے کہ پاکستان نے اپریل 2019 کے بعد بہت سے مثبت اقدامات اٹھائے مگر ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں جو رپورٹ پیش ہوئی وہ اس مدت سے قبل کی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’بلیک لسٹ کا خطرہ نہیں ہے کیونکہ اس لسٹ میں وہ ممالک ڈالے جاتے ہیں جو بات مانتے ہی نہیں، جیسے شمالی کوریا اور ایران۔ تاہم پاکستان مکمل تعاون کر رہا ہے اور اپنی خامیوں کو تسلیم بھی کر رہا ہے۔ ہاں اگر امریکہ کے ساتھ تعلقات بہت خراب ہو گئے تو اور بات ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو دو فائدے ہوں گے۔ایک تو یہ کہ پاکستان گرے لسٹ سے نکل جائے گا اور دوسرا یہ کہ معیشت بھی دستاویزی شکل اختیار کر لے گی۔
یاد رہے کہ جمعے کو فرانس کے شہر پیرس میں اپنے اجلاس کے بعد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاونت کے خلاف کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ایف اے ٹی ایف نے کہا تھا کہ پاکستان مقررہ وقت تک اس کے ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب میں ادارے کے صدر ژیانگ من لیو نے کہا کہ پاکستان کو جلد اور مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے اور اگر فروری تک اس نے خاطر خواہ پیش رفت نہ کی تو ایف اے ٹی ایف  مزید اقدامات پر غور کرے گا جس میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنا شامل ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: