Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیندک کا سونا زندگیاں نہ بدل سکا؟

ایرانی سرحد سے ملحقہ پاکستانی شہر تفتان سے صرف 40 کلومیٹر کی دوری پر واقع سیندک میں سونا، چاندی اور تانبا نکالنے کا کام گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے۔
یہ علاقہ ٹیتھیان کی اس ارضیاتی پٹی میں شامل ہے جو دنیا میں سونے، چاندی اور تانبے جیسے قیمتی معدنیات کے بیش بہا ذخائر کے حوالے سے جانا جاتا ہے ۔
اس پٹی کا سینکڑوں کلومیٹر حصہ بلوچستان کے ضلع چاغی سے بھی گزرتا ہے۔ ریکوڈک، سیندک، دشت کین اور اس جیسے دوسرے بڑے ذخائراسی پٹی کا حصہ ہیں۔
سیندک سے ذخائر نکالنے والی چینی کمپنی ایم آر ڈی ایل کے چیئرمین ہی شوپنگ کے مطابق اب تک یہاں سے ڈھائی لاکھ ٹن تانبا اور ہزاروں کلو گرام سونا حاصل کیا جا چکا ہے، اور پاکستان نے منافعے اور ٹیکسوں کی مد میں 437 ملین ڈالرز کمائے ہیں۔
سیندک پراجیکٹ کے ایک حالیہ دورے کے دوران ہی شو پنگ نے ’اردونیوز‘ کو بتایا کہ منصوبے کی تین میں سے دو کانوں کے ذخائر اگلے دو سال میں ختم ہو جائیں گے۔
لیکن ماہرین کے مطابق منصوبے کے دیگر حصوں میں اب بھی قیمتی معدنیات کے وسیع ذخائرموجود ہیں جن کو نکالنے کی غرض سے منصوبے کے مشرق کی طرف ایک نئی کان کھودنے کے لیے کمپنی اور حکومت کے مابین بات چیت جاری ہے۔ 

سیندک کو جانے والے راستے پر لگا بورڈ۔ فوٹو: اردو نیوز

ہی شو پنگ کے اندازے کے مطابق اس نئی کان میں تقریباً 278 ملین کے ذخائر موجود ہیں اور اگر اس پر کام کا آغاز ہو جاتا ہے تو یہ اگلے 19سال تک جاری رہ سکتا ہے۔
لیکن اگر فریقین اس کے لیے راضی نہیں ہوتے تو پھر سیندک پراجیکٹ پر کام 2021 میں بند ہو جائے گا اور تقریباً دو ہزار ملازمین بے روزگار ہوجائیں گے۔
ان ملازمین کی اکثریت چاغی، نوشکی اور بلوچستان کے دیگر اضلاع کے مقامی باشندوں پر مشتمل ہے۔
حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کو چینی کمپنی کی جانب سے سیندک کے نئے حصے میں کھدائی کے لیے لائسنس کی درخواست ستمبر میں دی گئی تھی جس پر فیصلے کا جلد امکان ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کمپنی نے علاقے میں ذخائر کی تلاش اور کھدائی کے لیے دو درخواستیں 2012ء میں بھی دی تھیں لیکن اس وقت ان پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

ذخائر کی دریافت اور کام کا آغاز

کمپنی کے نائب صدر محمداسحاق شاہوانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ سیندک میں پہلی بار تانبے کے ذخائر 1901ء میں برطانوی دور حکومت میں دریافت ہوئے۔

منصوبے کی تین میں سے دو کانوں کے ذخائر اگلے دو سال میں ختم ہو جائیں گے۔ فوٹو: اردو نیوز

حکومت پاکستان نے سنہ 1961 میں اس پر کام کرنا شروع کیا اور 1978ء میں جیالوجیکل سروے آف پاکستان نے معلوم کیا کہ یہاں پر تانبے کے تین بڑے ذخائر ہیں جنہیں جنوبی، شمالی اور مشرقی کان کا نام دیا گیا۔
1990 کی دہائی میں حکومت پاکستان نے چین کے ساتھ معاہدہ کیا جس کے تحت خام مال کی صفائی سے لے کر تانبے کو ٹھوس شکل میں عالمی مارکیٹ تک پہنچایا جانا تھا۔
چین کی ایم سی سی کمپنی نے 1995ء میں اس منصوبے پر کام شروع کیا مگر ایک سال بعد ہی فنڈز کی کمی اور دوسرے تکنیکی مسائل کی وجہ سے اس منصوبے پر کام روک دیا گیا۔ 
2002ء میں حکومت پاکستان نے دوبارہ چینی کمپنی سے رابطہ کرکے ان کے ساتھ ایک دس سالہ معاہدہ کیا۔
اس منصوبے کے تحت دونوں کا حصہ پچاس پچاس فیصد طے پایا گیا۔ 2002ء میں دوبارہ مشینری کی مرمت کی گئی اورایک سال بعد پیداوار کا عمل شروع ہوا۔
10 سالہ معاہدے ختم ہونے پر اس میں مزید پانچ سال کی توسیع ہوئی اور اس کے بعد 2017ء میں اس معاہدے میں تیسری مدت تک کے لیے توسیع کی گئی۔

ذخائر نکالنے کے لیے سب سے پہلے دھماکا خیز مواد کی مدد سے پہاڑ کو توڑا جاتا ہے- اردو نیوز فوٹو

اسحاق شاہوانی کے مطابق سیندک سے نکالے گئے خام دھات صرف اعشاریہ چار فیصد تانبا پایا جاتا ہے ۔ تانبے کے ساتھ دیگر قیمتی دھاتیں سونا اور چاندی بھی شامل ہوتی ہیں جس سے پیداواری اور آپریشنل لاگت کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ 

سونا، چاندی اور تانبا کیسے نکالا جاتا ہے؟ 

سیندک میں جنوبی اور شمالی کانوں میں کھدائی کا کام کیا جا رہا ہے۔ سب سے بڑی جنوبی کان کی گہرائی تقریباً 336 میٹر اور چوڑائی 100 میٹر سے لے کر 900 میٹر تک ہے۔
ذخائر نکالنے کے لیے سب سے پہلے دھماکا خیز مواد کی مدد سے پہاڑ کو توڑا جاتا ہے اس کے بعد بھاری مشینری کے ذریعے کان میں ڈرلنگ کی جاتی ہے۔
ڈرلنگ کے بعد کان کے مختلف حصوں سے خام دھات کے نمونے حاصل کرکے ان کا لیبارٹری ٹیسٹ کیا جاتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتنی مقدارمیں تانبا اور باقی دھاتیں موجود ہیں۔
ڈرلنگ کے بعد بڑے ٹرکوں کی مدد سے خام دھات کو نکال کر بڑے پتھروں کو چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل کرکے پلانٹ میں پہنچایا جاتا ہے۔ جہاں پر پانی اورکیمیائی مادوں کے ذریعے دھات کو پاوڈر جیسی شکل دے دی جاتی ہے اور اس کے بعد اسے بھٹی میں پگلایا جاتا ہے۔ بھٹی میں پگلانے کے بعد تانبے کے بلاک بنائے جاتے ہیں جو تقریباً 600 کلو گرام وزنی ہوتے ہیں۔ یہ پلانٹ یومیہ 14 ہزار ٹن خام دھات کی پراسسنگ کر سکتا ہے۔

سیندک کا خوبصورت صحرا۔ فوٹو: فیس بک

اسحاق شاہوانی کے مطابق گزشتہ 17 برسوں میں اب تک 7 کروڑ40 لاکھ ٹن خام مال نکالا گیا جس سے دولاکھ پچاس ہزار ٹن بلسٹر تانبا حاصل کیا گیا۔ ایک ٹن بلسٹر تانبے سے اوسطاً 90 گرام سونا حاصل ہوتا ہے۔
اسحاق شاہوانی نے بتایا کہ بلسٹر تانبے کو عالمی مارکیٹ میں بولی کے ذریعے فروخت کیا جاتا ہے۔ اور اس کو خریدنے والی کمپنیاں بعد میں اس کو مزید ریفائن کرکے سونا اور چاندی الگ کرتی ہیں۔
اسحاق شاہوانی کے مطابق یہ بات غلط ہے کہ کمپنی خام مال نکال کر چین لے جا کر وہاں پراسسنگ کرتی ہے کیونکہ کروڑوں ٹن خام مال کو صفائی کے بغیر لے جانا ممکن ہی نہیں۔
’ہماری کمپنی کانکنی سے لے کر خام مال کی صفائی اور پھر اسے تانبے کی شکل میں ڈھالنے کا سارا کام سیندک میں ہی سرانجام دیتی ہے۔‘ 

ملازمین کی شکایات

سیندک پراجیکٹ سے قیمتی ذخائرنکالنے والے کارکن اس منصوبے کے بڑے حجم کے باوجود تنخواہوں اور مراعات کی کمی کی شکایات کرتے ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے 49 سالہ محمد فاروق نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ سیندک میں سترہ سال سے چینی انجینئرزکے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
’یہ علاقہ کراچی سے کافی دور ہے لیکن روزگار کی وجہ سے یہاں آنا پڑا۔ سیندک کا موسم بڑا سخت رہتا ہے۔ یہاں سردی بھی بہت ہوتی ہے اور گرمی بھی۔ سردیوں میں درجہ حرات منفی 14تک گر جاتا ہے اور گرمیوں میں تقریباً 49 سے 51 سینٹی گریڈ تک اوپر چلا جاتا ہے۔‘

حکومت پاکستان نے چینی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

’پاکستان میں سٹیل کی فیکٹریاں ہیں مگر سونے اور تانبے کی یہ فیکٹری پورے پاکستان میں صرف ایک ہے۔ یہاں کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ پہاڑوں کو چیر کربڑے بڑے پتھر اٹھائے جاتے ہیں، انہیں ریت میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور پھر اسے بھٹی میں ڈالتے ہیں۔‘
’یہ گولڈ پراجیکٹ ہے، ہم جب کراچی جاتے ہیں تو دوست حیران ہوتے ہیں کہ آپ گولڈ پراجیکٹ میں ہوتے ہیں تو آپ کی تنخواہ بھی اتنی ہی ہوتی ہوگی۔ لیکن ہمارا بس چولہا ہی جل جاتا ہے۔‘
شکایات سے متعلق سوال پر چینی کمپنی کے نائب صدر اسحاق شاہوانی نے بتایا کہ دنیا میں کہیں بھی مزدور یا انتظامیہ کو سو فیصد اطمینان نہیں دلایا جاسکتا۔
’ہم مشاہرہ اور اجرت کے حوالے سے بلوچستان اور پاکستان میں بہتر مقام رکھتے ہیں۔ ہماری کوشش رہی ہے کہ ملازمین کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ ہماری کمپنی ملازمتوں میں مقامی لوگوں کو ترجیح دیتی ہے۔ یہاں کام کرنے والے 1456 ملازمین میں سے 1089 کا تعلق بلوچستان سے ہے اورصر ف دو سو چینی ماہرین اور ملازمین ہیں۔‘
تاہم بھٹی میں کام کرنے والے کچھ مزدور سہولیات سے خوش بھی ہیں۔
بولان کے علاقے سنی شوران کے رہائشی علی گل کہتے ہیں کہ ’ہم سولہ سو ٹمپریچر میں کام کرتے ہیں جس میں پتھر بھی پانی ہوجاتا ہے مگر تنخواہ بھی اچھی ملتی ہے۔‘

علاقے کی حالت زار

دنیا میں جہاں جہاں سے قیمتی معدنیات کی یہ پٹی ٹیتھیان گزرتی ہے وہاں وہاں یہ خوشحالی لے کر آئی ہے لیکن بلوچستان میں سونے، چاندی اور تانبے کے یہ پہاڑ بھی یہاں کے باسیوں کی زندگی نہیں بدل سکے۔ 

کمپنی کے مطابق وہ قریب کے چھ دیہات کو 24 گھنٹے بلا تعطل مفت بجلی فراہم کرتے ہیں۔ فوٹو: فیس بک

سیندک سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پندرہ سے بیس گھروں پر مشتمل گاؤں کلی نور احمد کا راستہ آج بھی پتھریلا اور کچا ہے۔ یہاں اتنا سونا ہونے کے باجود لوگوں کا حال سنہری محسوس ہوتا ہے نہ مستقبل۔
گاؤں کی کچی گلیوں میں بچے نوکیلے پتھروں پر ننگے پاؤں پھرتے ہیں۔ اور اگر کوئی بیمار ہو جائے تو اس کو علاج کے لیے کوئٹہ جانا پڑتا ہے۔
سیندک پراجیکٹ پر کام کرنے والی کمپنی کے مطابق انہوں نے سماجی زمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے بلوچستان حکومت کو 55 لاکھ ڈالر کی خطیر رقم ادا کی ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس رقم کو لوگوں کی بہتری کے لیے خرچ کیا جاتا ہے لیکن کلی نور احمد میں نہ کوئی سکول ہے اور نہ مرکز صحت۔
کمپنی کے حکام کے مطابق وہ قریب کے چھ دیہات کو 24 گھنٹے بلا تعطل مفت بجلی اور پانی فراہم کرنے کے علاوہ تعلیم اور صحت کی سہولیات بھی فراہم کر رہے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ یہاں کے لوگ معاشی حالت بہتر ہونے کے باوجود 'ایسی زندگی' گزارنے کے عادی ہیں۔ ’وہ کچے گھروں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔‘ 
کمپنی حکام کے مطابق  گاؤں کے بیشتر لوگ سیندک پراجیکٹ میں ملازمت کرتے ہیں اور انہیں تیس ہزار روپے سے لے کر ستر ہزار روپے تک کی تنخواہ دی جاتی ہے۔  ایک گھر کے تین تین لوگ بھی پراجیکٹ میں ملازم ہیں۔ 
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: