پاکستان کی وفاقی کابینہ نے سی پیک سے منسلک ترقیاتی منصوبوں میں چینی کارکنوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر ملک میں پائی جانے والی تشویش کا نوٹس لیتے ہوئے منصوبہ بندی کمیشن کو ہدایات جاری کی ہیں کہ ان پراجیکٹس میں چینیوں کے بجائے زیادہ سے زیادہ پاکستانی کارکنوں کو شامل کیا جائے۔
اردو نیوز کے پاس دستیاب دستاویزات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین سے قبل کابینہ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ سی پیک یا دوسرے چینی منصوبوں کے لیے ملک میں آئے ہوئے چین کے دو ہزار پانچ سو گیارہ شہریوں کو ایک دفعہ غیر معمولی اقدام کے طور پر مفت بزنس ویزا فراہم کیا جائے گا۔
تاہم کابینہ نے منصوبہ بندی کمیشن کو ہدایت کی کہ اب سے پاکستان میں سی پیک سے منسلک تمام منصوبوں میں مقامی ماہرین اور افرادی قوت کو بھرتی کیا جائے گا اور چینیوں پر زیادہ انحصار ختم کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے کابینہ نے فیصلہ کیا کہ کابینہ کی کمیٹی برائے سی پیک تمام منصوبوں کا ازسر نو جائزہ لے گی تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ کہاں کہاں چین کے افراد کے بجائے پاکستانی افراد کو بھرتی کیا جا سکتا ہے۔
اردو نیوز کے پاس موجود دستاویز کے مطابق چینی سفارت خانے کی جانب سے پاکستان کی وزارت خارجہ کو اپریل میں خط لکھا گیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ سی پیک اور متعلقہ منصوبوں کے لیے پاکستان میں اس وقت 10 ہزار سے زائد چینی ورکرز اور ماہرین موجود ہیں۔ سفارت خانے کی جانب سے پاکستانی حکومت سے درخواست کی گئی تھی کہ ان میں سے اڑھائی ہزار کے وزٹ ویزا کو بلا معاوضہ ورک ویزا میں تبدیل کر دیا جائے۔
پاکستان کے 2006 کے ویزا قواعد کے مطابق بیرون ملک سے جاری ویزے کی کیٹگری کو پاکستان آ کر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس مقصد کے لیے چین نے پاکستان سے درخواست کی کہ کابینہ ایک بار قواعد سے ہٹ کر چینی ورکرز کے ویزوں کو بغیر فیس کے ورک ویزا میں تبدیل کر دے۔
مزید پڑھیں
-
سی پیک منصوبوں میں تیزی کے لیے اتھارٹیNode ID: 432381
-
’سی پیک کی رفتار میں کمی نہیں آئی‘Node ID: 437301
چین کی درخواست میں کہا گیا کہ اگر یہ ورکرز واپس چین جا کر دوبارہ ورک ویزے پر پاکستان آئیں گے تو اس سے سی پیک منصوبوں کی رفتار متاثر ہو گی۔
وفاقی کابینہ نے اپنے حالیہ اجلاس میں درخواست کو منظور کر کے ان تمام چینی ورکرز کے وزٹ ویزوں کو ورک ویزوں میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم ساتھ ہی کابینہ نے ہدایت کی ہے کہ مستقبل میں زیادہ پاکستانی ورکروں کو چینی منصوبوں میں کھپایا جائے۔
پاکستانی اور چینی حکام نے سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے دورِ حکومت میں 46 ارب ڈالرز کے توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں کی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کے اختتام تک توانائی کے 16 ہزار میگاواٹ کے کول پاور اور صاف توانائی کے منصوبے مکمل کیے گئے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی حکومت اور چینی سفارت خانہ ماضی میں یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ سی پی پیک منصوبوں سے پاکستان میں 60 ہزار سے زائد افراد کو روزگار ملا ہے۔
وزیرِاعظم عمران خان کے دورہ چین سے قبل ہی سی پیک اتھارٹی کا بذریعہ صدارتی آرڈیننس قیام کا بھی عمل میں لایا گیا ہے۔
سی پیک اتھارٹی کے قیام کا مقصد چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت جاری تمام ترقیاتی کاموں کو ایک چھتری تلے لانا ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں