Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب احتجاج کی ریہرسل کرتے کرتے ہجوم پارلیمنٹ پہنچ گیا

مولانا فضل الرحمان کا مارچ جماعت اسلامی کے مارچ کی یاد دلاتا ہے۔ فوٹو: گیٹی امیجز
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا پہلی مرتبہ آج کی تاریخ پر 1996 میں ہوا تھا۔ یہ دھرنا جماعت اسلامی نے محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف کیا تھا۔ ایک ہفتے بعد یعنی چار نومبر کو صدر فاروق لغاری نے بینظیر کی حکومت کو برطرف کر دیا۔
تحریک انصاف کے سربراہ کو چھوڑ کر باقی اسلام آباد میں جتنے بھی دھرنے لگے وہ مذہبی جماعتوں نے لگائے۔ اس فہرست میں جماعت اسلامی کے علاوہ علامہ طاہر القادری اور مولانا خادم رضوی بھی شامل ہیں۔
آج 27 اکتوبر کو جمیعت علمائے اسلام (ف) نے کراچی سے اسلام آباد کے لیے آزادی مارچ شروع کیا ہے جس کو اب ’کشمیر مارچ ‘کا نام دیا جا رہا ہے۔
جس طرح جماعت اسلامی صدر فاروق لغاری سے بینظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کر رہی تھی اسی طرح مولانا فضل الرحمان وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
فاروق لغاری کے پاس آٹھویں ترمیم کے تحت منتخب حکومت کو برطرف کرنے کا اختیار تھا لیکن نواز شریف دور میں کی گئی آئینی ترمیم کے بعد یہ اختیار صدرکے پاس نہیں رہا۔
جماعت اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد نے جولائی 1996 میں اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس تک مارچ کا اعلان کیا تھا۔ عجیب اتفاق ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے بھی جولائی میں یہ اعلان کیا اور مارچ کے آغاز کی تاریخ 27 اکتوبر ہی رکھی۔ اس مارچ نے جماعت اسلامی کے دھرنا مارچ کی یاد دلا دی ہے۔

دھرنے کی قیادت قاضی حسین احمد نے کی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

جماعت اسلامی کے دھرنا مارچ سے کیسے نمٹا گیا؟
یہ دلچسپ بھی ہے اور تاریخ کا حصہ بھی۔ لاہور ہائی کورٹ نے جماعت اسلامی کو دھرنا لگانے کی اجازت دی تھی اور کہا تھا کہ دھرنا پرامن ہوگا۔
جماعت اسلامی کے دھرنا مارچ سے ایک روز قبل منی بجٹ کے خلاف اپوزیشن کی کال پر ملک بھر میں پہیہ جام ہڑتال ہوئی۔
26 اور 27 اکتوبر کو اسلام آباد میں دھرنے والوں کے داخلے پر غیر اعلانیہ پابندی تھی، پولیس اور خفیہ والے پنڈی سے اسلام آباد آنے والی ویگنوں سے انہیں اتار رہے تھے۔
علاوہ ازیں لاہور سے راولپنڈی جانے والی ٹرینوں کو روک کر تلاشی لی جاتی رہی اور شناختی کارڈ چیک کیے گئے۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں کو ٹرینوں سے اتارنے کے بعد اعلان کیا گیا کہ آگے کوئی گاڑی نہیں جائے گی۔
سخت انتظامات، لاٹھی چارج اور زبردست آنسو گیس کی وجہ سے دھرنا مارچ پہلے روز اسلام آباد میں داخل نہ ہو سکا۔ دھرنے کی قیادت قاضی حسین احمد نے کی جبکہ پروفیسر غفور احمد اور مولانا نورانی ٹرک پر موجود تھے۔
راولپنڈی میدان جنگ بنا رہا۔ کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں 12 بجے شروع ہوئیں جو شام چھ بجے تک جاری رہیں۔ موبائل فون اور پیجر سروس بند کر دی گئی۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا تو جواباً کارکنوں نے پتھراؤ کیا۔ دھرنے کے موقعے پر اور اس سے قبل کچھ گرفتاریاں بھی ہوئیں۔

مارچ کے ایک ہفتے بعد بینظیر حکومت کو صدر نے برطرف کر دیا۔ فوٹو: اے ایف پی

جماعتی کارکنوں نے پولیس اہلکاروں کو پکڑ کر انہیں شدید زدو کوب کیا۔ اسلام آباد میں آبپارہ، میلوڈی اور نیول ہیڈ کوارٹر کے پاس مظاہرے کیے، مظاہرین نے لال مسجد کے پاس چیک پوسٹ کو نذر آتش کر دیا۔
اس وقت کے وزیر داخلہ ریٹائرڈ جنرل نصیر اللہ بابر نے کہا کہ کورٹ کے فیصلے کے مطابق مارچ جب تک پرامن تھا، جانے دیا گیا جب انہوں نے حدود سے تجاوز کیا تو شیلنگ کی، مولانا نورانی اور اعجاز الحق آنسو گیس کے عادی نہیں لہٰذا بیہوش ہوگئے۔
یہ صورتحال بھی بنی کہ قاضی حسین احمد جس ٹرک پر سوار تھے پولیس اس ٹرک کے ٹائروں کی ہوا نکال کر لاؤڈ سپیکر اپنے ساتھ لے گئی۔ پولیس کی شیلنگ کی وجہ سے کارکن قاضی حسین احمد کو اکیلا چھوڑ گئے۔  
پہلے روز احتجاج کرنے والوں کو کامیابی نہیں ہوئی لیکن دوسرے روز دھرنا مارچ کامیاب ہوا۔ کارکن پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ رات کو ہی سینکڑوں کارکن مارگلہ کی پہاڑیوں پر چلے گئے تھے جو صبح کو نیچے اتر آئے اور پارلیمنٹ ہاؤس تک پہنچ گئے۔
پولیس نے اسلام آباد میں ایک ہزار اور راولپنڈی میں 15 سو آنسو گیس کے شیل برسائے۔
قاضی حسین احمد، پروفیسر غفور احمد، پروفیسر خورشید احمد، نعمت اللہ خان کو گرفتار کرلیا گیا لیکن دو گھنٹے کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔

مولانا فضل الرحمان کا مطالبہ بھی وہی ہے جو جماعت اسلامی کا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

مارچ کے ایک ہفتے بعد بینظیر حکومت کو صدر نے برطرف کر دیا، لہٰذا مخالفین کی جانب سے جماعت اسلامی پر یہ الزام آیا کہ اس نے صدر فاروق لغاری کی ایماء پر یہ احتجاج کیا اور دوسرے روز پارلیمنٹ تک احتجاجیوں کے پہنچنے کے لیے ہدایات دیں۔
احتجاجیوں کو پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے پوری ریہرسل کی گئی تھی کہ کس طرح سے مظاہرین آگے بڑھیں گے؟ پولیس کس طرح کارروائی کرے گی؟ اس مقصد کے لیے پولیس کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصے کو مظاہرین بنایا گیا۔
ریہرسل میں لاٹھی چارج، پتھراؤ اور شیلنگ بھی کی گئی جس میں کئی پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ ریہرسل میں بھی احتجاجی ہجوم پارلیمنٹ پہنچ گیا اور بعد میں دوسرے روز اصل احتجاجی بھی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے تھے۔

شیئر: