’’ماں میں پورے کینیڈا کو دوڑ کر عبور کروں گا چاہے اس کوشش میں جان کی بازی ہی کیوں نہ ہار جاؤں‘‘، یہ الفاظ ہیں اس بلند حوصلہ اورجواں ہمت نوجوان کے جس نے اپنی معذوری کو مجبوری نہیں بنایا بلکہ اپنے آہنی عزم سے کینیڈا کے گلی کوچوں میں دوڑ کر نئی تاریخ رقم کی۔
عزم و ہمت کا استعارہ قرار دیے جانے والے اس نوجوان کو دنیا ’ٹیری فوکس‘ کے نام سے جانتی ہے جو کینیڈا کے صوبہ ’’مینی ٹوبا‘‘ کے علاقے ’’ونی پگ‘‘ میں 28 جولائی 1958 کو پیدا ہوا۔ ٹیری کا بچپن بھی عام بچوں کی طرح شرارتوں اور شوخیوں سے بھرا تھا۔ تاہم اس کے اندر پائی جانے والی ایتھلیٹ کی بے چین روح اسے دوسرے بچوں سے ممتاز کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ سکول اور بعد ازاں کالج لیول پر بیس بال، باسکٹ بال، رگبی اور فٹ بال کا ایک بہترین کھلاڑی تھا۔
1977 میں جب وہ محض 18 سال کا تھا، اسے ہڈیوں کے کینسر نے آ لیا۔ چھ ماہ بعد اس کی ایک ٹانگ گھٹنے سے چھ انچ اوپر تک کاٹنا پڑی تا کہ مرض جسم کے باقی حصوں تک نہ پہنچے۔ اس کے بعد تقریباً 18 ماہ تک ٹیری کو کیمو تھراپی کے تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑا۔ علاج کے دوران ٹیری کا واسطہ کینسر سے متاثرہ سینکڑوں مریضوں سے پڑا جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔ اس دوران ٹیری نے مشاہدہ کیا کہ اگر کینسر کے شعبہ میں ریسرچ کا دائرہ کار بڑھایا جائے تو اس موذی مرض سے مقابلہ کرنے میں آسانی رہے گی۔ یہی وہ وقت تھا جب ٹیری نے معذوری کے باوجود پورے کینیڈا میں دوڑنے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد کینسر سے متعلق آگاہی اور ریسرچ کی مد میں فنڈ ریزنگ تھا۔ اس نے اپنی اس دوڑ کو ’’میراتھن آف ہوپ‘‘ کا نام دیا۔
مزید پڑھیں
-
کیا نوکری چھوڑنے کا وقت آ گیا؟Node ID: 440721
-
’اب ’دھرنا‘ فقط سیاسی اصطلاح تک محدود‘Node ID: 441451
-
’میں بھی کسی کی بیٹی ہوں‘Node ID: 441606
ابتداء میں ٹیری کی فیملی، دوستوں اور معالجین نے اس کے منصوبے کی مخالفت کی تاہم ٹیری یہ جانتے ہوئے بھی کہ مصنوعی ٹانگ کی ناقابل برداشت درد اور تکلیف سارے سفر میں اس کے ساتھ رہے گی، یومیہ 42 کلومیٹر فاصلہ کے ساتھ (انٹرنیشنل میراتھن کا معیاری فاصلہ) کل آٹھ ہزار کلومیٹر طے کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔
ٹیری نے اپنی مہم کا آغاز اپریل 1980 میں، نیو فاؤنڈ لینڈ صوبہ کے شہر سینٹ جان سے کیا۔ مہم کے آغاز میں لوگوں کی طرف سے ملنے والا ریسپانس انتہائی مایوس کن رہا۔ لیکن ٹیری نے ہمت نہ ہاری اور آہستہ آہستہ فنڈ ریزنگ مہم کامیابی کی طرف گامزن ہوگئی۔ ٹیری اپنے سفر کے دوران، نوااسکوشیا، کیوبک، اونٹاریو جیسے صوبوں سے گزرا۔ مصنوعی ٹانگ کے علاوہ موسمی حالات، زبان، لوگوں کی طرف سے عدم دلچسپی جیسے مسائل بھی ٹیری کی ہمت نہ توڑ سکے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگوں کی طرف سے ملنے والے ردعمل سے ٹیری کے لئے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا ہے۔ مہم کے دوران ٹیری کی ملاقات کینیڈین وزیراعظم سے بھی ہوئی۔ مختلف ریاستوں کی طرف سے ملنے والا پروٹوکول اس کے علاوہ تھا۔
ٹیری کی چندہ مہم کی مقبولیت کا یہ عالم ہوگیا تھا کہ میڈیا کا کوئی دن ٹیری کی خبر سے خالی نہ جاتا تھا اور وہ ٹیری جسے ابتداء میں چند ڈالرز ہی مل پائے تھے اب وہ دن میں ہزاروں ڈالرز عطیات کے نام پر وصول کر رہا تھا۔
مسلسل دوڑنے کی وجہ سے اب ٹیری کی حالت خراب رہنے لگی تھی۔ لیکن لوگوں کے منع کرنے کے باوجود ٹیری نے اپنی میراتھن مہم جاری رکھی۔ یہ اگست کے آخری ہفتے کی بات تھی جب ٹیری کو سینے میں درد کی شکایت ہوئی۔ یکم ستمبر کو انٹاریو صوبے کے علاقے تھنڈر بے میں دوڑتے ہوئے ٹیری کو دمے کا شدید اٹیک ہوا۔ جس کے بعد اسے قریبی اسپتال لے جایا گیا۔ اگلے روز ایک پریس کانفرنس میں ٹیری نے یہ افسوسناک خبر سنائی کہ اس کا کینسر پھیپھڑوں تک پھیل گیا ہے۔ جس کے سبب فی الحال وہ یہ مہم جاری نہیں رکھ پائے گا۔
ٹیری نے اپنی 143 روزہ مہم کے دوران روزانہ 42 کلومیٹر دوڑ کے ساتھ 5373 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔ جو کہ اس کے اعلان کردہ فاصلے کا تین چوتھائی بنتا ہے۔ ٹیری نے معذوری اور سخت مصائب کے باوجود کتنا فاصلہ طے کیا اس بات کا اندازہ آپ یوں لگا لیں کہ کراچی اور اسلام آباد کے درمیان تقریباً 1400 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اپنی اس مہم کے دوران ٹیری نے عطیات کی مد میں 17 لاکھ ڈالر وصول کئے۔ ٹیری جانتا تھا کہ اس کی جمع کردہ رقم ہدف سے بہت کم ہے لیکن کینیڈین عوام نے اسے مایوس نہ کیا بلکہ اس کی بیماری کے اگلے ہی ہفتے مزید ایک کروڑ ڈالر کے عطیات جمع کر لیے گئے جس میں مختلف صوبائی حکومتوں نے بھی حصہ ڈالا۔
اپریل 1981 تک عطیات کی رقم دو کروڑ 40 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی یہی ہدف ٹیری کا خواب تھا۔ اس دوران ٹیری کا علاج جاری رہا۔ علالت کے دوران ٹیری کے مداحوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا تھا جو اسے ڈاک کی صورت میں ہر روز ہزاروں کی تعداد میں نیک خواہشات کا پیغام بھیجتے تھے۔ ٹیری کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ کینیڈا کے کسی بھی کونے سے لکھے گئے خط پر اگر صرف " ٹیری فوکس کینیڈا " درج ہوتا تو وہ بنا کسی رکاوٹ کے ٹیری تک پہنچ جاتا تھا۔
انسانی تاریخ کا یہ عظیم کردار 28 جون 1981 کو موت کے ہاتھوں شکست کھا گیا۔ ٹیری کی وفات پر کینیڈین پرچم سر نگوں رہا۔ جب کہ کینیڈین وزیراعظم نے ایوان سے خطاب کے دوران ٹیری کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ ’’ قوموں کی زندگی میں بہت کم ایسے مواقع آتے ہیں جب تمام قوم کسی ایک شخص کی بلند حوصلگی اور جواں ہمتی کے باعث اس کی زندگی میں بھی اور اس کی موت پر بھی ایک ہوجائے ٹیری فوکس ایک ایسا نوجوان تھا جس نے ہم سب کو انسانی جذبے اور ہمت کے ذریعے پریشانیوں پر فتح حاصل کرنے کا طریقہ سمجھا دیا ‘‘۔
ٹیری فوکس کینیڈا کا سب سے کم عمر شخص تھا جسے زندگی ہی میں کینیڈا کا سب سے بڑا شہری اعزاز ’’آڈر آف کینیڈا‘‘ عطا کیا گیا اسی طرح برٹش کولمبیا کی صوبائی حکومت نے اسے ’’آڈر آف ڈاگ وڈ‘‘ سے نوازا۔ 1980میں ٹیری کو ملک کا کھیلوں کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’لیومارش ایوارڈ‘‘ دیا گیا اور اس کا نام ’’آل ٹائم گریٹ کینیڈین ا یتھلیٹس‘‘ کی فہرست میں بھی شامل کر لیا گیا۔
اس کے علاوہ 27 جون 1981کو کینیڈا کے محکمہ ڈاک نے روایت کے برعکس ٹیری فوکس کا یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔ محکمے کی روایت کے مطابق کینیڈا میں زندہ شخض کا یادگاری ٹکٹ جاری نہیں کیا جاتا بلکہ انتقال کر جانے والے کسی بھی اہل شخص کا یادگاری ٹکٹ اس کے انتقال کے تقریبا دس سال بعد جاری کیا جاتا ہے۔ ٹیری وہ واحد کینیڈین شہری ہے جس کی تصویر ایک ڈالر کے سکے پر ہے۔
ان اعزازات کے علاوہ اس وقت کینیڈا میں لگ بھگ 32 سڑکیں، ہائی ویز اور راستے ٹیری کے نام سے منسوب ہیں 14سکولوں اور کئی لائبریریوں کے نام ٹیری کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ 1986 میں اس سکول کا نام جہاں سے ٹیر ی نے گریجویشن کیا تھا تبدیل کرکے ٹیری فوکس سیکنڈری سکول رکھ دیا گیا۔ سکولوں اور لائبریروں کے علاوہ ایک درجن سے زائد عمارتیں بھی ٹیری فوکس کے نام سے پہچانی جاتی ہیں جس میں وینکور شہر میں واقع ’’فوکس کینسر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ بھی شامل ہے۔ کینیڈا کے طول وعرض میں ٹیری فوکس کے سات مجسمے بھی ایستادہ کیے گئے جن کے ساتھ ٹیری کی عزم و ہمت کی داستان رقم ہے۔ ایک کھلاڑی ہونے کے باعث نو’’ فٹ نس سینٹر‘‘ اور جمنازیم بھی ٹیری کی یاد دلاتے ہیں اس کے علاوہ برٹش کولمبیا کی صوبائی حکومت نے علاقے میں موجود ایک پہاڑی کا نام تبدیل کر کے ’’ ٹیر ی فوکس ماؤنٹین‘‘ رکھا ہے اور اس کے ارد گرد کے علاقے کو بھی ’’ٹیری فوکس پارک‘‘ کا درجہ دیا ہے۔ 1999میں کینیڈا کے ایک قومی سروے میں عوام نے ٹیری کو ’’عظیم ترین ہیرو‘‘ کادرجہ دیا تھا۔
2010میں کینیڈا میں منعقد ہونے والے سرمائی اولمپکس میں جن آٹھ افراد نے افتتاحی تقریب میں پرچم لہرایا تھا ان میں سے ایک ٹیری فوکس کی والدہ بیٹی فوکس بھی تھیں۔ ٹیری فوکس کی مصنوعی ٹانگ اور اس کے جوتے برٹش کولمبیا کے عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔
مشہور کینیڈین تاجر اور فور سیزن ہوٹلز کے مالک ’’ایسا ڈور شارپ‘‘ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ٹیری فوکس کے نام سے سالانہ دوڑ کا آغاز کیا یہ ایک ایسی دوڑ ہے جس میں ہار جیت نہیں ہوتی بلکہ کینسر کے علاج کی تحقیق کے حوالے سے عطیات اکھٹے کئے جاتے ہیں۔ ’’ایساڈور شارپ‘‘ کا جواں سال بیٹا کینسر کے ہاتھو ں جان کی بازی ہار گیا تھا۔ شارپ اور ٹیر ی فوکس کے خاندان کی کوششوں سے پہلی دوڑ ٹیری کے انتقال کے دو مہینوں کے بعد 13ستمبر1981میں ہوئی جس میں تین لاکھ افراد نے حصہ لیا اور 35 لاکھ ڈالر کا چندہ اکھٹا کیا گیا۔ چھے سال بعد ہی یہ ایک بین الااقوامی ایونٹ بن گیا جو دنیا کے ساٹھ ممالک میں ہر سال ستمبر میں منعقد کیا جاتا ہے۔ ٹیری فوکس فاؤنڈیشن کے مطابق اب تک وہ کینسر کے علاج میں تحقیق کے لئے 750ملین ڈالر سے زائد رقم فراہم کر چکے ہیں۔ جس میں اہم کردار’’ ٹیری فوکس رن‘‘ ایونٹ کا ہے۔ اس رقم کی معاونت سے کینسر کے علاج میں بیش بہا ترقی ہوئی ہے دنیا بھر میں ریس کا اہتمام عموما کینیڈین سفارت خانے، ہائی کمیشن اور ٹیری فوکس فاؤنڈیشن کی نمائندہ تنظیمیں کرتی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
مثالی جسم۔۔۔ اک خواب، اک سرابNode ID: 439396
-
’میری بیٹی میرا فخر۔۔۔ ہے‘Node ID: 439576
-
’منصوبے بنانے والے کو شیخ چلی نہیں کہتے‘Node ID: 439881
اپنی صلاحیت کے اعتبار سے ٹیری فوکس ایک عام ایتھلیٹ تھا، عالمی معیار کے اعتبار سے درمیانہ درجے کا میراتھن بھاگنے والا لیکن اس نے انسانی تاریخ میں موجود سب سے زیادہ مشکل میراتھن مکمل کی۔ اسی ٹیری فوکس نے ہزاروں لوگوں کے مجمعے کے سامنے اپنی دوڑ کے دوران پرجوش اور بھرپور تقریریں کیں۔ اکیلا بھاگنے والا ایتھلیٹ جس نے بے رحم مرض سے گزر کر اور اپنے مقصدِ زندگی کو پا لینے کے بعد اپنی پوری قوم کے تصور و خیال پر حکمرانی کی اور ایک لازوال ہیرو بن گیا۔ اس ساری کامیابی کے پیچھے کیا چیز کارفرما تھی؟ زندگی کی معنویت اور زندہ رہنے کا مقصد۔
ٹیری کی حیرت انگیز کامیابی کا راز یہ ہے کہ اُس کی زندگی کا مقصد اور اس مقصد کے حصول کی جانب اس کی لگن خود اس کی اپنی ذاتی مشکلوں اور پریشانیوں سے کہیں بڑھ کر تھی۔ اگر ہم اس کہانی کو پوری طرح سمجھ سکیں تو شاید یہ ہمارے طرزِ احساس کو بھرپور انداز سے تبدیل کردینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ ہمیں یہ بات واضح طور پر بتاتی ہے کہ کتنی بے کار ہے وہ زندگی کہ جو صرف اور صرف اپنے لیے اور اپنی ضروریات کے لیے اور محض اپنی ذاتی خواہشوں کے لیے بسر کی جائے۔
تو ہماری زندگی کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟؟ اس سوال کا جواب بہت سادہ اور آسان ہے۔ بالکل وہی جو ٹیری فوکس کی زندگی کا تھا.یا ایسے ہی ان گنت باہمت لوگوں کی زندگی کا ہوتا ہے۔ یہ مقصد ہے زندگی میں حصہ دار بننا۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں