کہیں پڑھا تھا کہ اگر آپ دولت نہیں کماتے تو آپ بے وقوف ہیں اور اگر آپ دولت کمانا نہیں چاہتے اور دوسروں کو دیکھ کر صرف آہ ہی بھر سکتے ہیں تو آپ مہا بے وقوف ہیں۔
زندگی میں مادی اشیا کی بھی بہت اہمیت ہے، روپیہ، پیسہ اور دولت سب کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ کا درجہ رکھتے ہیں اگر وہ جائز طریقے سے کمائے گئے ہوں۔
اپنے آپ کو معاشرے کا موثر اور کار آمد رکن بنانے کے لئے ہمیں دن رات بہت سی تگ و دو کرنا پڑتی ہے جس کے لیے کوئی کاروبار کا سہارا لیتا ہے تو کسی کو نوکری کی کوشش کرنا ہوتی ہے۔ تاہم چاہتے نہ چاہتے ہوئے ہمیں اپنی نوکری یا کاروبار سے متعلق چند ایسے فیصلے کرنا پڑتے ہیں کہ جب کوئی ٹھوس فیصلہ اور مصمم ارادہ ہی ہمیں سہارا دے سکتا ہے اور آئندہ کے لئے کسی بہتر راہ کا تعین ہو سکتا ہے۔ خیر ہم میں سے سب کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کب اس چیز کا ادراک کر لیں کہ یہ نوکری اب چھوڑ دینی چاہیے اور کسی اور دفتر یا فیلڈ میں طبع آزمائی کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں
-
’منصوبے بنانے والے کو شیخ چلی نہیں کہتے‘Node ID: 439881
-
’بیٹی تو لڑکی ہے بھائی کا مقابلہ نہ کیا کر‘Node ID: 440356
-
’دماغ سکڑتے اور پیٹ بڑھتے جا رہے ہیں‘Node ID: 440536
اولا یہ کہ آپ کہیں بھی کسی بھی ادارے میں کام کر رہے ہوں وہاں آپ کو لگی بندھی روٹین کے ساتھ چلنا پڑ رہا ہے، وہی آنا وہی جانا، کسی قسم کی کوئی تفریح نہیں، کوئی چھٹی نہیں، کوئی سیکھنے کے مواقع نہیں، ٹانگیں کھینچنے والے بے تحاشا، دفتری سیاست، بس آپ کا وہی حساب ہے کہ جیسے رہٹ پر بندھا ہوا بیل جس نے روزانہ یکساں کام کرنا ہے، آپ کو ایسا کوئی موقع بھی نہیں دیا جا رہا کہ آپ آؤٹ آف باکس سوچ سکیں، کوئی نیا منصوبہ آپ کے پلے پڑنا تو دور کی بات آپ اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں رہے تو بس آپ کو اس نوکری کو ترک کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کرنا ہو گا۔
اگر آپ کو کام کرنے کی جگہ پر خوشی محسوس ہو رہی ہے اور نہ ہی کام کر کے اطمینان مل رہا ہو تو اس کی دو تین وجوہات ہیں۔ ایک تو آپ کو اپنے مطلب کی نوکری نہیں ملی، آپ کو تنخواہ بروقت نہیں مل رہی، آپ پر کام کا دباؤ زیادہ ہے اور آپ اپنے نالائق کولیگز کا کام بھی اپنے سر لینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں، یا آپ کا شوق کچھ ہے اور جاب آپ کسی اور سیکٹر میں کر رہے ہیں تو اس صورتحال میں بھی آپ کو اپنے کریئر پر ازسر نو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تیسرا اہم پہلو یہ کہ آپ دن رات محنت اور دلجمعی سے اپنے ٹاسک پورے کر رہے ہیں لیکن جواب میں آپ کو کسی قسم کی حوصلہ افزائی کا ایک لفظ بھی سننے کو نہیں ملتا، ملازمت میں چھ سات سال بعد بھی آپ کی ترقی کا کوئی امکان نہیں اور آپ بدستور اسی سیلری اور اسی گریڈ پر ہیں۔ آپ صرف پیسے کے حصول کی خاطر کام کیے جا رہے ہیں کیونکہ آپ کمفرٹ زون سے نکلنا نہیں چاہتے اور اب نوبت یہ آ گئی ہے کہ اس مسئلے نے آپ کو تھکان کا شکار بنا دیا ہے۔
اب آتے ہیں ان تمام مسائل کے حل کی طرف جو اگرچہ حتمی تو نہیں لیکن کسی حد تک کارآمد ہو سکتے ہیں ، ملازمت کے ساتھ ساتھ ہمیشہ کوئی چھوٹا کاروبار شروع کیجیے، اب خواہ وہ کوئی فوڈ کارنر ہو یا پرانے کتابوں کی دکان، کوئی چھوٹا سا جنرل سٹور ہو جس میں بے شک چھوٹے پیمانے پر کام کا آغاز کیا جائے۔
یاد رکھیے ایک جگہ پر کام کرنے کے دوران آپ کو دوسری جگہ سے جاب کی آفر آئے جو نسبتا بہتر ہو تو بالکل دیر مت کیجیے۔ اپنی جذباتی وابستگی کو سائیڈ پر رکھیے اور بہتر نوکری کے حصول کو ممکن بنائیے۔
ملازمت کی جگہ پر کولیگز کے ساتھ ماحول ضرور بہتر رکھیے تاہم ان کے اضافی کام بھی اپنے سر لے کر اپنے لیے درد سری کو دعوت مت دیں۔ اپنے منصوبہ جات اور پراجیکٹس کا کریڈٹ لینے کی عادت پیدا کیجیے۔
کوئی نہ کوئی ہنر جس میں ڈرائیونگ، سلائی کڑھائی، لکھنا لکھانا ضرور سیکھیں، کوشش کیجیے کہ ہمہ وقت مصروفیت کے ساتھ ساتھ فرصت کے چند لمحات بھی آپ کا مقدر بنیں۔
اگر ایک جگہ آپ کو کام پسند نہیں لیکن معاشی حالات ایسے ہیں کہ جاب کرنا ضروری ہے تو ایسی جگہ کا انتخاب کریں کہ جہاں بے شک کم تنخواہ ہو لیکن وہ بروقت ادا کی جائے کیونکہ آپ کی تنخواہ اگر 50 ہزار بھی ہے لیکن بروقت نہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں لیکن 10 ہزار آپ کو مہینے کی پہلی تاریخ کو مل جاتے ہیں تو وہ آپ کے لئے سونا ہیں۔
آخر میں سب سے اہم بات یہ کہ اصل میں ہم اتنا غریب ہوتے نہیں لیکن ہماری ایک بری عادت یہ ہوتی ہے کہ ہم برے وقت کے لیے کچھ پس انداز نہیں کرتے جس کی وجہ سے کسی بھی ناگہانی آفت کے موقع پر مشکل سامنے آجاتی ہے۔ کفایت کی عادت اپنائیں اور خوش رہیں۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں