اس ملک میں اہم فیصلے ’اقتدار‘ والے ہی کرتے ہیں لیکن ان کو نبھانا ’حکومت‘ کرنے والوں کو پڑتا ہے۔ فوٹو: روئٹرز
’ہمارے پاس حکومت ہے اقتدار نہیں ہے۔۔۔‘ گذشتہ ہفتے ایک ٹاک شو پر تحریک انصاف کے ایک وزیر کے منہ سے بے اختیار یہ جملہ سرزد ہو گیا۔
میزبان اور ایسے ہی کسی موقع کی گھات لگائے ہوئے باقی مہمانوں نے وزیر صاحب کے ان کلمات کو فورا اچک لیا اور پھر باقی پروگرام میں بحث ’حکومت’ والوں اور ’اقتدار‘ والوں کے فرق کے ارد گرد ہی گھومتی رہی۔
وفاقی وزیر اپنے اس جملے کی توجیح پیش کرتے رہے لیکن کمان سے تیر نکل چکا تھا۔
اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ یہ جملہ لاشعوری طور پر یا کسی اور پیرائے میں وزیر صاحب کے منہ سے نکلا ہے تب بھی یہ سنا سنا سا لگتا ہے۔
اس سے پچھلی حکومتوں میں بھی وزرا صبح، شام، اٹھتے بیٹھتے کبھی کھل کر، کبھی اشاروں کنایوں میں یہ کہتے رہے ہیں کہ اس ملک میں ’حکومت‘ بے شک ہماری ہے لیکن ’اقتدار‘ کسی اور کے پاس ہے۔ یہ حقیقت البتہ موجودہ حکومت کو سمجھنے میں 14 ماہ لگ گئے۔
لیکن چلو بالآخر سمجھ ہی گئے!
اس ملک میں اہم فیصلے ’اقتدار‘ والے ہی کرتے ہیں لیکن ان کو نبھانا ’حکومت‘ کرنے والوں کو پڑتا ہے۔
اس بات کو مثالوں سے واضح کرنے کے لیے تحریک انصاف کی پسندیدہ دہائی پچھلے 10 سالوں میں سے ہی دو مواقع چن لیتے ہیں۔
پہلا موقع بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد ان کی اپنی ہی فہرست کے مطابق نامزد لوگوں میں سب سے اوپر نام سابق صدر پرویز مشرف کا تھا لیکن پیپلز پارٹی کو نہ صرف مشرف کو بطور صدر (وقتی طور پر ہی صحیح) قبول کرنا پڑا بلکہ گارڈ آف آنر دے کے ایوان صدر سے رخصت کرنے کا ’کریڈٹ‘ بھی با دل نخواستہ لینا پڑا۔
دوسرا موقع تھا پرویز مشرف کے خلاف ٹرائل کا۔۔۔ مسلم لیگ ن چاہے جتنی بھی کوشش کر کے ذمہ داری عدالتوں کے اوپر ڈالے، بہرحال مشرف کو ملک سے جانے دینے کا ناپسندیدہ فیصلہ کیا ’اقتدار‘ والوں نے لیکن اس کی تہمت لگی اس وقت کے ’حکومت‘ والوں پر۔
اور اب۔۔۔ نواز شریف ائیر ایمبولینس سے گئے ہیں یا قطری شاہی خاندان کے وی آئی پی جہاز میں؟ سیڑھیاں چڑھ کر گئے ہیں یا لفٹر کے ذریعے جہاز میں پہنچایا گیا ہے؟ وہ لندن میں ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں یا گھر پر ہی علاج کراتے ہیں؟ یہ باتیں بے معنی سی ہیں۔
ہاں اگر کچھ معنی خیز ہے تو وہ یہ کہ جنہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر شریف خاندان کو سیاسی اکھاڑے سے باہر رکھنے کی کوشش کی، وہی اب شریف خاندان کو ملک سے باہر بھیج رہے ہیں۔
نواز شریف تو جا ہی چکے، اب جلد ہی گنجائش نکال کر مریم نواز کے باہر جانے کا کو ئی نہ کوئی وسیلہ بن جائے گا۔
حکومت میں موجود وہ لوگ جو اسی سسٹم میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر موجودہ تبدیلی کی گنگا میں بھی ہاتھ دھو رہے ہیں، وہ موجودہ حالات سے سمجھوتہ کر چکے ہیں۔ شکوہ شکایت اگر سنائی دے رہا ہے تو نئے کھلاڑیوں کی جانب سے۔
خان صاحب کا غصہ بھی کسی حد تک جائز ہے جو وہ ہر موقع پر مخالفین پر دھاڑ کر نکال رہے ہیں لیکن جتنی جلدی وہ اس صدمے سے باہر نکل کے آگے بڑھیں گے، اتنا بہتر ہوگا کیونکہ بڑے بڑے گورننس کے چیلنجز منہ کھولے کھڑے ہیں۔
’آپریشن تبدیلی‘۔۔۔ جس کا باقاعدہ منظم سیاسی ظہور 2011 میں لاہور میں ہونے والے جلسے سے۔۔۔ بھرپور آب و تاب سے ہوا اور جس کا نقطہ عروج 2018 میں ہونے والے انتخابات تھے۔
وہ ’آپریشن تبدیلی‘ اپنے آغاز کے دسویں اور اقتدار کے دوسرے ہی سال میں ’رول بیک‘ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
معیشت کی باگ ڈور تو پہلے ہی ’ماہرین‘ کے ہاتھ میں ہے اور وزیراعظم کا کردار بظاہر ان کو مبارک باد دینے تک محدود ہو چکا ہے۔ جلد ہی باقی معاملات میں بھی یہ کردار رسمی سے رسمی ہوتا چلا جائے گا۔
اگر کبھی آپریشن تبدیلی کے معمار ’پوسٹ آپریشن رپورٹ‘ لکھنے بیٹھیں گے تو حساب لگ سکے گا کہاں کے اہداف کہاں تک حاصل ہوئے اور اس کو کیوں ایک دم لپیٹنے کی نوبت آن پڑی؟ یہ طے پانا بھی ضروری ہے کہ اس منصوبے میں کیا کھویا اور کیا پایا؟ فی الحال تو تجربوں کا سفر بدستور جاری ہے۔
صورتحال مگر بقول شاعر کچھ ایسی نظر آ رہی ’کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔‘
اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں