این آر او کی اصطلاح، دو ہزار سات میں اس وقت تخلیق کی گئی جب جنرل مشرف نے اپنے اقتدار کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کے لیے ’نیشنل ریکنسلی ایشن آرڈیننس‘ کے آخری تنکے کا سہارا لیا۔ اسے اگر ’مدر آف آل ڈیلز‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ ملکی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی سیاسی ورکرز، بیوروکریٹس اور پارٹی قائدین کو اس طرح فراخدلانہ عام معافی دے کر ان کے مقدمات کو برخواست نہیں کیا گیا۔
ویسے تو این آر او، ایک تکنیکی اور قانونی طور پر پیچیدہ معاملہ تھا ( جسے بعد میں سپریم کورٹ نے اٹھا کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک بھی دیا) لیکن عوامی زبان میں اب جب بھی یہ تین الفاظ ۔ این آر او ۔۔ استعمال ہوں تو اس سے مراد کوئی ڈیل یا کوئی پس پردہ سمجھوتہ ہی سمجھا جاتا ہے۔
بطور وزیراعظم اپنی پہلی تقریر سے لے کر پچھلے ہفتے گلگت میں خطاب تک، خان صاحب بار بار واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ کسی بھی قسم کا این آر او ہرگز نہیں ملے گا۔ اور اپوزیشن بھی کمال ڈھٹائی سے پوچھتی رہی کہ ’آپ سے‘ این آر او آخر مانگا کس نے ہے؟ اس سوال میں شرارتا ’آپ سے‘ کے الفاظ پر بار بار زور بھی دیا گیا۔
پچھلے چند دنوں سے پاکستان تحریک انصاف کے معزز ارکان ڈیل، این آر او اور ڈھیل میں باریک فرق سمجھانے میں لگے ہوئے ہیں اور اس بات پر مسلسل تلے ہوئے ہیں کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ موجودہ حکومت کسی کو کسی بھی قسم کا این آر او دے کیونکہ این آر او میں تو کیسسز سرے سے ختم ہی کر دیے گئے تھے یہاں تو صرف علاج کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اجازت دی گئی ہے۔
مزید پڑھیں
-
حکومتی کمیٹی کیا سوچ رہی ہے؟Node ID: 440946
-
’مولانا کی اینڈ گیم کیا؟‘ ماریہ میمن کا کالمNode ID: 441501
حکومت کی اس توجہیہ کو ان کے اپنے وزرا، پارٹی ممبرز اور ووٹرز سمیت کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں۔ چاہے ٹی وی پر جا کر کتنے ہی زور و شور سے اس کا دفاع کرنا پڑے، آف دی ریکارڈ سب ہی اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں اس ’این آر او‘ کا پارٹی کو سیاسی طور پر نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ کپتان کے وہ کھلاڑی بھی جو ایمان کی حد تک یقین کر بیٹھے تھے کہ اس ملک میں اگر احتساب ہوگا تو صرف خان صاحب کے بابرکت ہاتھوں سے ہی۔ لہذا اب اگر سوال پوچھیں گے تو انہیں مطمئن کرنے کے لیے قیادت، اپنے لب و لہجے میں اعتماد کہاں سے لائے گی۔
بھروسہ صرف تحریک انصاف کے ووٹر کا ہی نہیں ٹوٹا ۔۔۔ مایوس مسلم لیگ میں میاں صاحب کے وہ متوالے بھی ہوئے ہیں جو حقیقت میں یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اب اس ملک میں سویلین بالادستی کی اس جنگ کا فیصلہ کن مرحلہ آ چکا ہے اور نواز شریف سیسہ پلائی دیوار بن کر اب سٹیبلشمنٹ پر کاری وار کریں گے۔
مسلم لیگ نواز والے بھی شہباز شریف اور نوازشریف کے بیانیے کا نظریاتی فرق سمجھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شہباز شریف اور نواز شریف کے بارے میں یہ سنتے سنتے، کہ دونوں کا بیانیہ مختلف ہے، ہماری نسل بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے آگے اب تیس کے پیٹے میں پہنچ چکی ہے۔ یہ دونوں بھائی ایک بار پھر سمیع اللہ اور کلیم اللہ کی طرح ایک دوسرے کو نظریاتی بال پاس کر تے کرتے ہمیشہ کی طرح ڈی کے اندر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ گول کر پاتے ہیں یا نہیں ابھی اس کا تعین کرنے کے لیے چند ہفتے لگیں گے۔
جو کچھ گزشتہ چند ہفتوں میں ہوا ہے اور جو آئندہ چند دنوں میں ہونے جا رہا ہے وہ اندھوں کو بھی دکھائی اور بہروں کو بھی سنائی دی رہا ہے۔ چاہے کوئی بھی اسے خوبصورت لفاظی سے الجھانے کی کوشش کرے یا قانونی تکنیک کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرے لگتا یہی ہے کہ شاید خان صاحب اپنے سیاسی کیریئر کا سب سے ڈیمیجنگ یو ٹرن لینے جا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب خان صاحب کی منشا اور اختیار سے ہو رہا ہے یا بادلِ ناخواستہ انہیں یہ کڑوی گولی نگلنی پڑ رہی ہے؟ ماضی میں تقریبا ہر وزیراعظم ببانگ دہل اپنے محدود اختیارات کے بارے میں شکوہ کر چکا ہے۔ اگر یہ سب کچھ بقول شیخ رشید واقعی ’طبی نظریہ ضرورت‘ کے تحت ہو رہا ہے تو شاید خان صاحب کو بقول شخصے کوئی ’فیصلہ‘ کرنا پڑے کیونکہ انصاف کی تحریک کا سفر، این آر او کے سپیڈ بریکر کے بعد اپنی رفتار کھو دے گا۔ اگر سابق حکمران خاندان کو ڈیل ملی تو تو کہا جائے گا کہ درمیانے درجے کے لیڈروں اور بیورو کریٹ کا کیا قصور۔
اور شاید سوال یہ بھی پوچھا جائے گا کہ آخر اس سارے بکھیڑے کا مقصد کیا تھا؟
دارالحکومت میں مڈ ٹرم الیکشنز کی جو چاپ سنائی دے رہی ہے ، جس کا اشارہ خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں کی گئی اپنی تقریر میں بھی کیا، ان انتخابات کے لیے حکومت کو احتساب سے ہٹ کوئی اور نعرہ دریافت کرنا ہوگا۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں/بلاگز اور کالموں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں