نمرتا کی موت تاحال ایک معمہ
فنگر پرنٹس کے 11 نمونے 16 اکتوبر شناخت کے لیے بھجوائے جبکہ نمرتا کی موت 16 ستمبر کو ہوئی تھی۔ فوٹو: فائل
لاڑکانہ کے میڈیکل کالج میں طالبہ کی موت کا معمہ دو ماہ بعد بھی حل نہ ہو سکا، جائے وقوعہ سے اکھٹے کیے گئے فنگر پرنٹس اور متوفی کے گلے میں بندھے ڈوپٹے کی ڈی این اے رپورٹ موصول ہونے کے باوجود بی بی آصفہ ڈینٹل کالج کی طالبہ نمرتا چندانی کی موت کی اصل وجہ معلوم نہ ہو سکی ہے۔
نادرا کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق نمرتا کیس کے سلسلے میں فنگر پرنٹس کے 11 نمونے ارسال کیے گئے تھے جو کہ تمام کے تمام غیر معیاری ٹھہرے جس کی وجہ سے کسی ایک بھی نمونے کی شناخت نہ ہوسکی۔ نادرا رپورٹ سے اس بات کا انکشاف بھی ہوا ہے کے لاڑکانہ پولیس کی جانب سے فنگر پرنٹ میچینگ کے لیے جائے وقوعہ سے اکھٹے کیے گئے انگلیوں کے نشانات کے نمونے واقعے کے ایک ماہ بعد ارسال کیے گئے۔
لاڑکانہ پولیس نے وزارت داخلہ کو جائے وقوع کے مختلف مقامات سے حاصل کیے گئے فنگر پرنٹس کے 11 نمونے کورنگ لیٹر نمبر R/CR/4869-70، کے ہمراہ 16 اکتوبر کو شناخت کے لیے بھجوائے جبکہ نمرتا چندانی کی موت 16 ستمبر کو ہوئی تھی۔ نادرا نے تمام فنگر پرنٹس لاڑکانہ پولیس کو واپس بھجوا دیے ہیں اور اس حوالے سے رپورٹ جوڈیشل انکوائری کے جج کو پیش کر دی گئی ہے۔
لاڑکانہ شہر میں پولیس فرانزک لیبارٹری ہونے کے باوجود فنگر پرنٹس جیسے اہم مرحلے میں ایک ماہ کی تاخیر نے بھی کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
دوسری جانب پنجاب فارینسک ایجنسی کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق نمرتا کے گلے میں لپٹے دوپٹے سے کوئی ڈی این اے حاصل نہیں کیا جا سکا۔ فارینسک ایجنسی کی جانب سے نمرتا کے گلے میں مبینہ طور پر پھندے کے طور پر استعمال ہونے والے دوپٹے کی ڈی این اے رپورٹ لاڑکانہ پولیس کو ارسال کردی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ دوپٹے سے کسی قسم کے اسکن ٹشوز، یا خون کے دھبے نہیں ملے جس وجہ سے ڈی این اے حاصل نہیں کیا جاسکا۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کے دوپٹے کو واقعے کے نو دن بعد 25 ستمبر کو ڈی این اے کے لیے بھجوایا گیا۔
جبکہ ماہرین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ واقع کے 72 گھنٹوں بعد تک کپڑے سے جلد کے ٹشوز سے ڈی این لیا جاسکتا ہے، تاخیر کے باعث ڈی این اے ملنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں، پوسٹ مارٹم کے دوران نمرتا کے ناخن بھی ڈی این اے کے لیے نہیں بھیجے گئے جو کہ انتہائی ضروری تھا جس سے خود کشی اور قتل کا معمہ حل ہوسکتا تھا۔
ڈی این اے رپورٹ بھی جوڈیشل کمیشن کو پیش کی جاچکی ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئیندہ دو روز کے دوران جوڈیشل انکوائری کہ رپورٹ وزارت داخلہ سندھ کو بھجوا دی جائے گی۔