’اویغور مسلمانوں کے نظریات زبردستی تبدیل کیے جاتے ہیں‘
’اویغور مسلمانوں کے نظریات زبردستی تبدیل کیے جاتے ہیں‘
پیر 25 نومبر 2019 11:36
اقوام متحدہ کے مطابق چین کے سنکیانگ صوبے میں تقریباً دس لاکھ اویغور مسلمانوں کو قید میں رکھا ہوا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
چینی حکومت کی لیک ہونے والی سرکاری دستاویزات میں اویغور مسلمان قیدیوں پر ہونے والے مظالم اور جیلوں میں ہونے والی اندرونی کارروائی کا انکشاف کیا گیا ہے۔
بین الاقوامی کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی جانب سے شائع کی گئی لیکڈ دستاویزات میں ان جیلوں کو چلانے کا طریقہ کار واضح کیا ہوا ہے جس میں جیلوں کی موجودگی خفیہ رکھنا، قیدیوں کے نظریات زبردستی تبدیل کرنا اور قیدیوں کو فرار ہونے سے روکنا شامل ہے۔
اس کے علاوہ قیدیوں کو کن حالات میں رشتے داروں سے ملنے اور واش روم جانے کی اجازت ہونی چاہیے، بھی لیک ہونے والی دستاویزات میں واضح کیا ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق چین کے سنکیانگ صوبے میں تقریباً 10 لاکھ اویغور مسلمان اور دیگر نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والوں کو جیلوں میں قید کر کے رکھا ہوا ہے۔
دستاویزات میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کس طرح سے سنکیانگ کے باسیوں کی بھاری نجی معلومات کے ڈیٹا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولیس شہریوں کو حراست میں لیتی ہے۔
آئی سی آئی جے کے مطابق لندن میں موجود چینی سفارتخانے نے لیک ہونے والی دستاویزات کو من گھڑت اور جعلی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
دستاویزات ایسے موقع پر سامنے آئی ہیں جب چین کو صوبہ سنکیانگ میں انسانی حقوق کی پامالی کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تیس سے زائد ممالک نے چین پر ’جبر کی خوفناک مہم‘ چلانے کا الزام لگایا ہے۔
جبکہ چین نے اویغور اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ بد سلوکی کو ہمیشہ مسترد کیا ہے اورمؤقف اپنایا ہے کہ چین ان مراکز میں ’اسلامی انتہا پسندی‘ اور ’علیحدگی پسندی‘ سے نمٹنے کے لیے رضاکارانہ تعلیم و تربیت دے رہا ہے۔
دستاویزات میں مذہبی اقلیتوں کو قید کرنے کی مدت کم سے کم ’ایک سال‘ بتائی گئی ہے، لیکن چند کیسز میں قید کا دورانیہ ایک سال سے کم بھی رہا ہے۔
آئی سی آئی جے کے مطابق دستاویزات میں غیر ملکی شہیریت رکھنے والے اویغور کو حراست میں لینے، اور بیرون ممالک میں رہنے والے سنکیانگ کے اویغور کا پتہ لگانے کی تفصیلی ہدایات شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ کو ملک بدر کر کہ چین واپس بھی بھیجا گیا ہے۔