وزارت داخلہ نے استدعا کی ہے کہ مشرف کو صفائی کا موقع ملنے تک خصوصی عدالت کو کارروائی سے روکا جائے (فوٹو: سوشل میڈیا)
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ روکنے کے لیے وفاقی حکومت کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزرات قانون کے سیکرٹری کو بدھ کے روز ریکارڈ سمیت طلب کر لیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے وکیل کو سننے سے انکار کرتے ہوئے قرار دیا کہ پرویز مشرف اشتہاری ہیں وہ اس مقدمے میں متاثرہ فریق نہیں۔
عدالت نے وزارت قانون و انصاف سے تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کر دی۔
منگل کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ہدایت دی تھی کہ پرویز مشرف عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوتے تو دفاع کا حق ختم ہو جائے گا۔ جسٹس عامر فاروق نے ایڈشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی سے استفسار کیا کیا آپ سپریم کورٹ کی ہدایت سے واقف ہیں؟
ایڈشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے سپریم کورٹ کی ہدایات کا علم نہیں، جسٹس عامر فاروق نے کہا آپ یہاں عدالت کی معاونت کے لیے موجود ہیں آپ کو تمام حقائق اور بیک گراؤنڈ کا علم ہونا چاہیے۔ آپ کو حقائق کا علم ہی نہیں تو دلائل کیسے دیں گے؟
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا وزارت داخلہ کا کوئی نمائندہ یہاں موجود ہے؟
اس کے بعد پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر روسٹرم پر آگئے اور بولنے کی اجازت چاہی جس پر عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو دلائل دینے سے روک دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا وفاق خصوصی عدالت کی تشکیل پر کیسے سوال اٹھا سکتا ہے؟ وفاق اب کیسے کہہ سکتا ہے کہ شکایت مجاز اتھارٹی سے نہیں کی گئی؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا اس وقت ٹریبیونل کس کا ہے؟ کیا اس کا کوئی گزیٹ نوٹیفیکیشن ہوا؟ سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ اس بارے میں تفصیلات لے کر عدالت کو آگاہ کریں گے۔
پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کا حکم نامہ معطل کرنے کی ایک اور درخواست دائر کرنے والے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ مجھے بولنے دیا جائے دس سے پندرہ منٹ میں دلائل ختم کردوں گا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سلمان صفدر کو بولنے سے روک دیا۔ سلمان صفدر نے کہا کہ 20 سالہ کیرئیر میں ایسا نہیں ہوا کہ ٹرائیل کے دوران وکیل کو عدالت سے باہر بھیج دیا گیا ہو ، میرا بنیادی حق مجروح ہو رہا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا کوئی بنیادی حق متاثر نہیں ہو رہا ہے، آپ پرویز مشرف کے وکیل تھے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
عدالت نے وزارت قانون و انصاف کو تمام ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کر تے ہوئے کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کر دی۔
لاہور ہائیکورٹ میں درخواست قابل سماعت قرار
دوسری طرف لاہور ہائیکورٹ نے پرویز مشرف کے خصوصی عدالت کا فیصلہ رکوانے کے لئے دائر درخواست پر عائد اعتراضات ختم کرتے ہوئے اسے قابل سماعت قرار دے دیا ہے۔
لاہور سے اردو نیوز کے نمائندے رائے شاہنواز کے مطابق عدالت نے نوٹس جاری کرتے ہوئے وزارت قانون و انصاف سے سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت سماعت کے لیے بنائی گئی خصوصی عدالت کی تشکیل اور سمری بدھ کو طلب کر لی ہے۔ درخواست کی سماعت کرنے والے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو بھی طلب کر لیا ہے۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا کہ خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روکا جائے۔ درخواست پر رجسٹرار آفس نے قانونی اعتراض اٹھائے تھے جس کے بعد پرویز مشرف کے وکیل نے رجسٹرار آفس کے اعتراض سمیت درخواست عدالت میں لگانے کی استدعا کی تھی جسے منظور کر لیا گیا تھا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی عدالت نے رجسٹرار آفس کے اعتراض کا جواب دینے کے لیے پرویز مشرف کے وکیل کو ایک دن کا وقت دیا تھا۔
پرویز مشرف کے وکیل ایڈووکیٹ طارق رحیم نے درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کی وطن واپسی ملک کے کسی شہر میں بھی ہو سکتی ہے اگر انہیں سزا دی جاتی ہے تو وہ کسی بھی ائیر پورٹ سے گرفتار ہو سکتے ہیں لہذا کسی بھی صوبے کی ہائیکورٹ سے یہ فیصلہ رکوانے کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ اس سے ملتی جلتی ایک درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی دائر ہوئی ہے آپ بھی اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کرتے۔ جس پر مشرف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ درخواست وفاقی حکومت نے دائر کی ہے۔ جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ آپ نظر ثانی اپیل میں کیوں نہیں جاتے تو وکیل طارق رحیم نے کہا کہ سپریم کورٹ نظر ثانی اپیل میں خصوصی عدالت سے متعلق فیصلہ دے چکی ہے۔
اپنے دلائل میں پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ خصوصی عدالت کا قیام ہی غیر قانونی ہے۔ اس لیے اس درخواست میں وفاقی حکومت، وزارت قانون و انصاف، ایف آئی اے اور خصوصی عدالت کے رجسٹرار کو فریق بنایا گیا ہے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بد قسمتی سے اس ملک میں ہر چیز میں ڈائنامکس بدلتے ہیں۔ اپنے ریمارکس میں انہوں نے مزید کہا کہ آپ کی ساری باتیں ٹھیک ہیں مگر یہ عدالت کیسے سماعت کر سکتی ہے اس کا جواب دیں۔
بھارتی سپریم کورٹ نے 2017 میں اپنے حکم پر نظر ثانی کی تھی کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے کسی کا بنیادی حق متاثر ہوا تھا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے نے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف عدالت کی اجازت سے بیرون ملک گئے ہیں؟ عدالت کو بتایا گیا کہ پرویز مشرف عدالت کی اجازت سے بیرون ملک گئے۔ خصوصی عدالت نے انیس نومبر کو موقف سنے بغیر غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کیا ہے۔ مشرف بیماری کی وجہ سے بیرون ملک زیر علاج ہیں۔ بیماری ہی کی وجہ سے خصوصی عدالت میں اپنا موقف پیش نہیں کرسکے۔
دلائل سننے کے بعد عدالت نے رجسٹرار آفس کے اعتراض ختم کرتے ہوئے پرویز مشرف کی درخواست کو قابل سماعت قرار دے دیا جبکہ اٹارنی جنرل کو نوٹس طلب کرتے ہوئے سماعت بدھ ستائیس نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔
خیال رہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمہ کے لیے بنائی گئی خصوصی عدالت نے فیصلہ انتیس نومبر کو سنانے کا اعلان کیا تھا۔