خالد حسین نے جنرل مشرف کی آمریت کے دوران بھی تنقیدی کارٹون بنائے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے مشہور کارٹونسٹ خالد حسین 1989 سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ اب تک 10 ہزار سے زائد کارٹون بنا چکے ہیں اور ان کا ماننا ہے وہ مستقبل میں بھی یہی کرتے رہیں گے۔ البتہ وہ چند دن پہلے اپنی نوکری سے فارغ کردیے گئے۔
خالد حسین کے لیے کارٹون صحافت میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے جس کے ذریعے وہ مزاح کی چاشنی کے ساتھ کسی سنجیدہ موضوع پر کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور عوام بھی اس پیغام کو بخوبی سمجھتی ہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’آپ کسی بھی اخبار پڑھنے والے سے پوچھیے تو وہ آپ کو بتائے گا کہ وہ سب سے پہلے پرچے میں کارٹون کو دیکھتا ہے اور پھر آگے بڑھ کر خبریں پڑھتا ہے۔ کارٹون قہقہے لگوانے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس میں ایک ہلکے اور سہل انداز میں سنجیدہ پیغام چھپا ہوتا ہے۔ یہ عوام تک اپنی بات پہچانے کا بہترین طریقہ ہے۔‘
جہاں فرشتوں کے بھی پر جلنے لگ جاتے تھے، وہاں بھی خالد حسین ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے اور ان کے اپنے مطابق انہوں نے جنرل مشرف کی آمریت کے دوران بھی تنقیدی کارٹون بنائے۔
وہ کہتے ہیں ’یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب کسی کی ہمت نہیں ہوا کرتی تھی کہ جنرل مشرف کے بارے میں کچھ کہے یا لکھے جو آرمی چیف بھی تھے اور چیف ایگزیکٹو بھی لیکن میرے ادارے والے بہت بہادر تھے اور میں مشرف کی پالیسیوں کا سخت ناقد تھا۔ ان کے خلاف کارٹون بنائے لیکن انہوں نے مجھے نکلوانے کی کوشش نہیں کی۔‘
پیپلز پارٹی کا دور ان کے لیے سب سے زیادہ آسان تھا لیکن نواز شریف کے دور حکومت میں ایک بار انہیں ایک صحافتی ادارے سے نکال باہر کیا گیا۔
خالد حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ تحریک انصاف کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ سسٹم کے خلاف جنگ کرنا چاہتے تھے اور اسی لیے وہ انہیں پسند کرتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کا اب تک کا کام ملک کی غربت کے حوالے سے ہے، کشمیر میں ظلم و بربریت کے خلاف بھی، انہوں نے بے تحاشہ کارٹون بنائے۔
خالد حسین بتاتے ہیں ’ظاہر ہے میرے لیے پاکستان اور اس کی غریب عوام زیادہ اہم ہے۔ میں یہ نہیں کر سکتا کہ کسی کی حمایت میں کارٹون بناؤں یا کسی کی جی حضوری کرنے لگوں۔ یہ میرا کام نہیں۔‘
گذشتہ دنوں ایک مقامی انگریزی اخبار میں چھپنے والے کارٹون کی وجہ سے خالد حسین کو نوکری سے نکال دیا گیا۔
خالد حسین کہتے ہیں ’ہم جانتے ہیں کہ اخبار میں جو کچھ چھپتا ہے وہ ایک بار ضرور مدیر کی نظر سے ہوکر گزرتا ہے۔ لیکن اس بار مجھ پر ساری ذمہ داری ڈال دی گئی۔ حالانکہ میں نے اس سے سخت کارٹون بھی بنائے تھے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ کارٹون کے حوالے سے شاید غلط فہمی پیدا ہوئی ہے۔ وہ اپنے کارٹون میں دکھانا چاہتے تھے کہ کیسے امریکہ کے صدر ٹرمپ لفاظی سے کام لے کر کشمیر کے معاملے کو مسلسل ٹال رہے ہیں۔
ان نامساعد دور سے گزر کر بھی خالد حسین مایوس نہیں ہیں۔ بلکہ ان کا ماننا ہے کہ یہ ان کے پیشے کا حصہ ہے۔
وہ کہتے ہیں ’ظاہر ہے پریشانی ہوگی لیکن اس پیشے میں ہم آئے ہی اپنے شوق اور جذبے کے ساتھ ہیں۔ یہ تو اس کا حصہ ہے۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں