’وزیراعظم خود معاملات کی خبر رکھتے ہیں اور ہدایات جاری کرتے ہیں‘ (فوٹو:سوشل میڈیا)
اسے تحریک انصاف حکومت کی اچھی قسمت ہی سمجھیے کہ پی آئی سی سانحہ میں وکلا نے تمام میڈیا کا فوکس مکمل طور پر اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔ سینئیر وکلا رہنماؤں، بار ایسوسی ایشنز کےعہدیداروں اور چوٹی کے قانون دانوں نے جس جارحانہ طریقے سے پی آئی سی پر چڑھ دوڑنے والے اپنے وکیل بھائیوں کا دفاع کیا ہے، اس سے عوامی غیض و غضب کے سیلاب کا رخ بھی وکلا برادری کی طرف مڑ گیا ہے۔
تمام تر بحث ٹیلی وژن سکرینز پر پُرتشدد مناظر اور سینیئر وکلا کی جانب سے گھڑے گئے حیران کن جواز اور دھمکی آمیز لہجوں کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔ اس دوران یہ نکتہ کہیں دب کر رہ گیا کہ ہسپتال میں موجود مریضوں کی جانوں کی محافظ پنجاب انتظامیہ، حملے کے دوران دو گھنٹوں تک کیوں شل رہی اور چند سو وکلا کس طرح دن دہاڑے بنا کسی رکاوٹ ہسپتال میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔
سانحہ پی آئی سی کی گرد جب بیٹھے گی تو ان سوالوں کے جوابات کسی کو تو کھوجنے ہوں گے۔
گذشتہ انتخابات کے بعد سے ہی، پنجاب میں تحریک انصاف کی اتحادیوں کے سہارے کھڑی حکومت مسلسل تجربات کے عمل سے گزر رہی ہے۔ پنجاب کی وزارت عظمیٰ کا انٹرن شپ پروگرام مکمل ہو کر نہیں دے رہا۔ گورننس کے اس تجربے کو تین مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔سب سے پہلا فیز تھا ’شراکت داری فیز‘ جو کم و بیش آٹھ ماہ تک چلانے کی کوشش کی گئی۔ اسں دوران پنجاب میں اختیارات کو پانچ بڑوں کے درمیان تقسیم کیا گیا۔
یہ پانچ بڑے اپنے اپنے علاقوں اور اپنے محکموں میں خود مختار تھے اور ہر طرح کی پوسٹنگ ٹرانسفرسے لے کر فنڈز کے استعمال اپنی مرضی سے کرتے رہے۔ اس سیٹ اپ کی کارکردگی کی خبر لینے خان صاحب ہر دوسرے ہفتے لاہور آکر دربار سجایا کرتے تھے لیکن حسب توقع ہوا وہی جس کی سیاسی مبصرین نے پیشگی اطلاع کر دی تھی۔
نہ صرف یہ کہ ان پانچوں بڑوں کی باہمی چپقلش سے پارٹی کو سیاسی طور پرنقصان پہنچا بلکہ اختیارات کی کھینچا تانی میں بیورکریسی اور انتظامیہ بھی بری طرح کنفیوز ہو گئی۔ اس دوران صوبائی تخت الٹنے کے منصوبوں کی بھی سن گن ملی۔ پارٹی کے اندر سے بھی جب گورننس کے بارے میں تشویش بڑھی تو اس ماڈل کو تبدیل کرنے کی ٹھانی گئی۔
یوں پنجاب گورننس کے دوسرے فیز میں داخل ہوگیا۔ اسے ’خود مختار فیز‘کہہ لیجیے کیونکہ اس میں وزیراعلیٰ پنجاب کو کسی حد تک فیصلے اور تقرریاں کرنے کی خود مختاری دی گئی۔ وزیراعلیٰ کے اختیارات چیلنج کرنے والے ہیوی ویٹ وزرا کو سخت تنبیہ کی گئی۔ ’بڑوں‘ نے بھی اپنے پر پرزے کم کیے اور وقتی طور پر فرنٹ فٹ سے بیک فٹ پہ چلے گئے۔ پہلے کی طرح اس فیز میں بھی پنجاب کے معاملات پر خان صاحب نے خود نظر رکھی، ساتھ ہی صوبہ میں اپنا کردار تھوڑا بڑھا دیا۔
اس فیز میں وزیراعلیٰ کی سفارشات میں پنجاب میں کچھ تبدیلیاں بھی گئیں اور کچھ لوگوں کو پنجاب سے دیس نکالا بھی ملا۔
اختیارات کے ارتکاز کے باوجود جب حسب خواہش گورننس نہ ہو پائی تو پنجاب میں حکومتی سٹیریٹجی ایک مرتبہ پھر تبدیل کی گئی۔ وزیراعلیٰ کا اپنا سیکریٹری صوبہ بدر اور تمام رشتہ دارافسر راتوں رات تبدیل کر دیے گئے اور وفاق سے افسر ہمراہ خاص لسٹوں کے بھیجے گئے جو ’خاص افراد‘ نے تیار کی ہیں۔
یوں اب پنجاب تیسرے فیز یعنی ’ریموٹ کنٹرول فیز‘ کی طرف بڑھ چکا ہے۔ اس فیز میں سیاسی قیادت کا کردار محدود اور بیوروکریسی پر انحصار زیادہ ہے۔ بظاہر وزیراعلیٰ رسمی طور پر میٹنگز کی صدارت تو کرتے ہیں لیکن ان بریفنگ اور رپورٹس کا حتمی جائزہ اسلام آباد میں لیا جاتا ہے اور یوں تمام معاملات براہ راست وفاق سے ہی چلائے جا رہے ہیں۔
اب ہر دوسرے ہفتے خود پنجاب آنے کی بجائے، صوبے کی انتظامیہ مع وزیراعلیٰ، چیف سیکریٹری اور آئی جی کو وزیراعظم آفس طلب کر لیا جاتا ہے۔
وزیراعظم خود معاملات کی خبر رکھتے ہیں اور ہدایات جاری کرتے ہیں۔ پی آئی سی پر دھاوے کے وقت بھی خان صاحب دارالحکومت میں ایک ایسی ہی میٹنگ کی سربراہی کر رہے تھے جس میں پنجاب کے سب انتظامی سربراہان موجود تھے۔
موجودہ ’ریموٹ کنڑول فیز‘ کے تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب خان صاحب وزیراعظم کے ساتھ ساتھ پنجاب کے ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ بھی ہیں۔ یاد رہے کہ ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ ہی کے پاس پنجاب کے محکمہ داخلہ کے اختیارات ہیں۔
سو اب داخلی محاذ پر، ڈاکٹروں اور وکیلوں کی لڑائی سے جنم لینے والا انتظامی چیلنج ہو یا سفارتی سطح پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کا ٹاسک یا پھر میڈیا میں حکومتی بیانیے کی سرپرستی کا معاملہ ہو، خان صاحب نے اتنی ذمہ داریاں اپنے سر لے لی ہیں جن سے نمٹنے کے لیے اضافی توانائیاں اور وقت درکار ہے۔
وکلا اور ڈاکٹرزکے درمیان تصفیہ آج نہیں تو کل ہونا ہی ہے کیونکہ یہاں دونوں مافیاز ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔
لیکن اس سارے بحران سے اٹھنے والا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پنجاب میں آخر کب تجربے ختم اور گورننس شروع ہو گی؟
اور اس سوال کا جواب صوبے کے حقیقی وزیراعلیٰ جناب عمران خان ہی دے سکتے ہیں۔